Author
امریکہ کی پچھلے کئے سالوں سے پالیسی رہی ہے کہ جہاں پر بھی کوئی حریف بن کر ابھرے، اسے کچل دو۔ یوگوسلاویہ کی تباہی سے لے کر عراق، لیبیا، یمن پر بمباری کے ساتھ ساتھ کیوبا ایران ونیزویلا سمیت درجنوں ممالک پر پابندیاں لگا کر انہیں کمزور کردیا۔ لیکن عراق اور افغانستان میں امریکی شکست اور اسرائل کی طرف سے غزہ میں نسل کشی کے ساتھ ساتھ شام، لبنان ایران اور یمن میں جارحیت نے واشنگٹن کو ایک نیا ماڈل فراہم کردیا۔
امریکی کی ڈوبتی ہوئی معیشیت اور عوام میں جنگوں سے بیزاری کی وجہ سے اس نے ایک متبادل لائحہ عمل تیار کیا ہے جس میں ہر خطے کے حصے میں چھوٹے اسرائیل آئیں گے۔ افریقہ میں کینیا اور Rawanda کو یہ ذمہ داری سونپی جارہی ہے، مسلم دنیا میں سعودی عرب، مشرقی وسطی میں اسرائیل جبکہ جنوبی ایشیا میں ہندوستان کو۔ دنیا کی اس نئی چودھراہٹ اور بندر بانٹ میں عالمی قوانین کی حیثیت کم ہوجائے گی اور اگر اسرائل کی طرح کا کوئی چودھری اپنے خطے میں امریکی عزائم سے بڑھ کر بھی کوئی کاروائی کرنا چاہے گا تو اسے روکنا مشکل ہوگا کیونکہ عالمی قوانین کو تباہ کردیا گیا ہے۔ ہندوستان کے اندر بڑھتے ہوئے صیہونی Zionist رجحانات پر میں لکھ چکا ہوں (اس پر پنکج مشرا کا بہترین انٹرویو یو ٹیوب پر دستیاب ہے)۔
امریکہ ہندوستان اتحاد پاکستان مخالف نہیں، چین مخالف ہے، لیکن ہندوتوا کی اپنی مجبوریاں ہیں جس کی بنا پر اسے پاکستان بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا میں مسلسل دخل اندازی کرنی پڑتی یے۔ یہ خطے میں امن کے لئے خطرہ ہے کیونکہ بدقسمتی سے امن جذبات سے زیادہ عالمی نظام میں عسکری بیلنس کی بناء پر قائم ہوتا ہے۔ ہندوستان کا پاکستان پر حملہ خطے میں ایک “new normal” بنانے کی کوشش تھی جس میں ایک علاقائی چودھری کا جب دل کرے وہ اسرائیل کی طرح اپنی عوام کو پہلے ہمسائے ملکوں کے خلاف اشتعال دلوائے اور پھر بارڈر پار بمباری شروع کردے۔ اسی لئے تین دن مسلسل حملے کئے گئے، جس میں مغربی اسلحے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ڈرون کا بھی استعمال ہوا۔
پاکستان میں لبرل نما اور سامراج پسند لیفٹ کے دوست یہ بیانیہ دے کر بہت فخر کررہے ہیں کہ ہم نے جنگ کی مخالفت کی اور امن کے حق میں بات کی۔ ان افلاطونوں کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ یہی بیانیہ پاکستانی ریاست کا بھی تھا۔ پہلگام کے واقعے کے بعد عالمی میڈیا کے ساتھ ہر انٹرویو میں پاکستان حکام نے ایک ہی بات دہرائی کہ ہم امن چاہتے ہیں اور پہلگام پر عالمی تحقیقات کمیشن کی حمایت کرتے ہیں جبکہ بی جے پی اور بھارت کے نمائندوں نے مسلسل کہا کہ نہ تحقیقات ہوں گی اور، نہ مذاکرات، صرف بدلہ لیا جائے گا جبکہ بھارت کے اندر روز پاکستان کو غزہ بنانے کے بیانات جاری کئے جارہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شائد پہلی بار عالمی میڈیا اور عالمی لیفٹ میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے لئے ہمدردی بڑھی ہے۔
پھر تیسرے دن کے حملوں کے بعد پاکستان نے جوابی حملہ کیا۔ اسی حملے کے نتیجے میں ہندوستان کی کارپوریٹ کلاس نے مودی پر دباؤ ڈالا اور امن پر زوردیا۔ اس کے بعد بھارت کی طرف سے جب پہلی جنگ بندی کی آفر آئی تو وہ پاکستان نے قبول کرلی۔ اب لبرل کیا کریں جبکہ واضح ہے کہ اس موقع پر پاکستان نے جارحیت کی مخالفت کی اور جنگ بندی پر بھی فوری رضامند ہوگئے؟ اگر ریاست سے متضاد بیانیہ بنانا ہے تو یا تو کہیں کہ جنگ ختم نہیں ہونی چاہئے تھی یا کھل کر کہیں کہ بھارت کو مسلسل بمباری کرتے رہنی چاہئے تھی اور آگے سے پاکستان کو صرف ساحر لدھیانوی کی نظمیں پڑھنی چاہئیے تھیں۔ بس میٹھی میٹھی باتیں کرنے سے تو انسان سقراط نہیں بن جاتا۔
امن قائم ہوا ہے پاکستان فضائیہ کی جوابی کاروائی کی وجہ سے جس نے ملٹری equilibrium کو بحال کیا ہے۔ اس بدلتی دنیا میں یکطرفہ طور پر عسکری بیلنس ختم کرنا امن نہیں، مسلسل بمباری کو دعوت دینے کے برابر ہے، خصوصی طور پر جب ایک ملک اسرائیل کی طرح کہہ دے کہ اسے کاروائی کرنے کے لئے کوئی ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو دوست امن چاہتے تھے، ان کے لئے سمجھنا ضروری ہے کہ بدقسمتی سے امن کا یہی راستہ تھا۔ اس لئے اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ امن صرف لبرل دانشوروں کو چاہئے تھا اور باقی سب لوگ جنگ کی دعا مانگ رہے تھے۔ قصہ مختصر، ان چند دنوں میں ہندوستان کے خطے کا اسرائیل بننے کے خواب کم از کم ابھی کے لئے دفن ہوگئے ہیں جو کہ کچھ عرصے تک خطے میں امن کا ضامن بن سکتا ہے۔
ایک اور بچگانہ سوال ہے کہ اس سب کے بعد لوگ اب پاکستان کی عسکری قیادت پر تنقید کیسے کریں گے۔ جواب ہے جیسے پہلے کرتے تھے۔ جنگ کے دوران بھی ہم نے ملٹری کورٹ کے فیصلے پر کھل کر تنقید کی۔ جدلیاتی تجزئے ہمیشہ حالات کے مطابق بنائے جاتے ہیں نا کہ کسی ریاست سے محبت یا نفرت کی بنیاد پر۔ مثال کے طور پر 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوشلسٹ حکومت کے خلاف پاکستان کے کردار کو میں بیسویں صدی کے بدترین جرائم میں سے ایک تصور کرتا ہوں (خواجہ آصف بھی اس کا اعتراف کرچکے ہیں) جبکہ اشرف غنی کی حکومت (جس کا میں بلکل بھی حمایتی نہیں) کے خلاف بھی پاکستان کی مداخلت کی سخت مخالفت کی تھی اور غنی کی حکومت کی حمائت کی تھی۔ اصول بنیادی ہے۔ جب تک یہ عالمی ریاستی نظام قائم یے، کسی بھی ملک کے پاس یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے ملک کو اپنے تابع رکھے، چاہے اس ملک کا نام ہندوستان ہو یا پاکستان۔
اصل سیاسی سوال ہے کہ اس militarized پس منظر میں آگے کی جدوجہد کے لئے کیا راستے موجود ہیں؟ ایک طرف خطے میں علیحدگی پسند تنظیمیں ہیں جن میں اب یہ کلیریٹی آگئی ہے کہ بیرونی عسکری مدد کے بغیر ان کی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی (جیسا شام میں کردوں نے امریکہ کے ذریعے “آزادی” حاصل کی)۔ پاکستان میں کل ایک علیحدگی پسند گروہ نے کھلم کھلا بھارت سے درخواست کی کہ وہ اسے اسلحہ فراہم کرے تاکہ وہ پاکستان کو توڑ سکے۔ مودی سے مدد مانگنے پر شدید اختلافات کے باوجود میں اس بات پر ان کی تعریف کرتا ہوں کہ وہ اپنے راستے پر واضح ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ ہندوستان-اسرائیلی-امریکی مدد کے بغیر وہ اپنا کام نہیں کرسکتے کیونکہ جنگ جیتنا محض جذبے کا کام نہیں بلکہ عسکری لاجٹکس logistics کا سوال ہے۔ وہ کم از کم ان پروفیسروں سے بہتر ہیں جو اپنے طلبا کو قومی آزادی کی جنگیں لڑنے کا بھاشن دیتے ہیں لیکن اپنی نوکری خطرے میں پڑے تو دور جا کر چھپ جاتے ہیں۔
جو لوگ اس گٹھ جوڑ کا حصہ نہیں بننا چاہتے، ان کو بھی موقف واضح کرنا ہوگا۔ میرا ماننا ہے کہ آنے والے سالوں میں پاکستان میں ملک گیر، ترقی پسند سیاست ناگزیر ہوجائے گی۔ اس کی بنیادی وجہ معروض کے اندر ایک بڑھتا ہوا تضاد ہے۔ خطے کو جن بیرونی خطرات کا سامنا ہے، وہ مسلسل ٹیکنالوجی اور وسائل مانگتے ہیں۔ لیکن پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ اور حکمران طبقات کا رہن سہن اس قابل نہیں کہ یہ تقاضے پورے کرسکے۔ بدترین جاگیرداری، غیر پیداواری انڈسٹری، عسکری قبضے اور مذہبی جنونیت کی شکل میں سماجی پسماندگی کسی بھی قسم کے جدید پیداواری تقاضے پورے نہیں کرسکتا۔ نتیجہ کیا نکلے گا؟ بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھے گا، مہنگائی اور بیروزگاری بڑھے گی، تعلیم اور صحت کا بجٹ کٹے گا، دریاوں، پہاڑوں، کھیتوں اور معدنیات کو بیچا جائے گا، اور اگر تب بھی پیسے پورے نہ ہوئے، تو امریکہ کے لئے ایک بار پھر فرنٹ لائن سٹیٹ بننے کی تیاری ہوجائے گی۔ اس کے خلاف جو بھی آواز اٹھائے گا اس پر شدید سختی ہوگی، جیسے پہلے ہوتا رہا ہے۔ اور اسی رجحان کے خلاف ہمیں پہلے سے زیادہ منظم ہوکر لڑنا ہوگا۔
دوسری جانب لیفٹ کا بیانیہ وہی ہونا چاہئے جو 1927 سے 1949 تک چین کی خانہ جنگی میں ماو کا موقف تھا۔ کہ جو بوجھ تاریخ نے اس خطے ہر ڈالا ہے، وہ چین کے حکمران طبقات اٹھانے کے قابل نہیں۔ یعنی بیرونی جارحیت سے وہی چین لڑ سکتا ہے جو اندرونی طور پر اس لڑائی کو لڑنے کے لئے تیار ہو۔ اور اس تیاری میں سب سے بڑی رکاوٹ حکمران طبقات ہیں جو جاگیر داری، سرمایہ داری، قومی و صنفی جبر، کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو ملٹرزم کے تابع کررہے ہیں۔ اس طبقے کو اکھاڑ کر ہی انصاف کی طرف بڑھا جاسکتا ہے اور معیشیت کو بھی جدید تقاضوں پر استوار کیا جاسکتا ہے جس سے نہ صرف پیداواری صلاحیت بڑھے بلکہ مزدور کسان اور دیگر محروم طبقات، مظلوم اقوام اور دیگر محکوم پرتوں (خواتین، اقلیتیں) کے درمیان ہم آہنگی بھی پیدا کی جاسکے گی۔ اس طرح سے ماضی کے بیانئے کے اندر تضادات (یعنی حکمران طبقات کی خواہشات اور معروضی حالات میں تضادات) کو پرکھ کر ہی مستقبل کا بیانیہ نکالنا ہیگل Hegel کے نزدیک جدلیات کی بنیاد ہے۔
حالات کا درست ادراک کرنا دشمن سے صلح نہیں، حقیقی لڑائی کے آغاز کی بنیاد بنتا ہے۔ پاکستان میں یہ لڑائی ابھی شدت اختیار کرے گی اور اس کے لئے نظریاتی اور تنظیمی طور پر تیاری شروع کرنی ہوگی۔ یہ لڑائی کوئی گروہ الگ ہو کر نہیں لڑ سکتا، اور نہ ہی عالمی حالات سے یکسر کٹ کر خیالی دنیا کے اندر یہ لڑائی لڑی جاسکتی ہے۔ یہاں یہ بات کرنا بھی اہم ہے کہ لائحہ عمل اور تجزئے میں اختلافات کے باوجود لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرمے کی ضرورت پڑے گی کیعنکہ جس دباؤ کی وجہ سے حکمران طبقہ گرے گا، اس ملبے میں سے اگر کوئی متبادل نہ بنایا گیا تو پھر لیبیا یا شام جیسی آزادی ہوگی۔ مارکس نے تاریخ کے جبر کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ انسان اپنی تاریخ خود بناتا ہے، لیکن اپنی مرضی کے حالات میں نہیں۔ ایسے میں عالمی نظام کے اندر سامراجی ملٹرزم، ہمسائے ملک میں جنگی جنون، اور اندرونی طور پر ایک ناکام ہوتا ہوا سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچہ۔ یہ وہ تضادات ہیں جنہوں نے خطے کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے، اور جن کے اندر سے ایک نئے معاشرے کی تعمیر کا آغاز کرنا ہے۔ ایسا نہ کرنے کے نتائج پورے خطے کو مزید پسماندگی اور نفرت کے دلدل میں دھکیل دے گی