Author
فکشن پڑھتے ہوۓ اب میرے لیے یہ جاننا بھی بہت ضروری ہوتا ہے کہ لکھاری اپنی تحریر میں کتنا خودمختار ہے۔ کیا لکھاری کسی موضوعاتی حصار میں تو ہاتھ پاٶں نہیں مار رہا؟ اس کی موضوعاتی کاٸنات کتنی وسعت کی حامل ہے۔ کہیں لکھاری سیلف سینسر شپ کا شکار تو نہیں اور یہ ضروری بھی نہیں کہ یہ سنسرشپ جنسی یا ملکی معاملات کے حوالے سے ہو یہ سنسر شپ گلی محلے کے کسی عام سے واقعہ کو بیان کرنے کے حوالے سے بھی ہو سکتی ہے کہ لکھاری چھوٹے معاملات اور موضوعات میں پڑنا ہی نہیں چاہتا کہ اس کے آدرش اور مقاصد بہت بڑے بڑے ہیں۔ اسی تناظر میں جب طاہر سندھو کے پنجابی افسانوں کے مجموعہ ”نیوندرا“ کو دیکھتا ہوں تو طاہر سندھو اپنے موضوعات میں خودمختار نظر آتا ہے جو موضوع اسے متاثر کرتا ہے وہ اسے بیان کرنے کی جرات رکھتا ہے۔ اگر وہ افسانہ” کہانی دا جیون تے مرن“ اور آر دے نہ پار دے“ میں سماج کے مختلف کرداروں اور کمیونٹیز پر نشترزنی کر سکتا ہے تو افسانہ ”فیصلہ“ میں وہ نظام انصاف کو کٹہرے میں لانے کی ہمت رکھتا ہے جس کا وہ بطور وکیل خود بھی حصہ ہے ۔ ایسے ہی بطور لکھاری افسانہ ”مکھ وکھالی“ میں وہ اپنی لکھاری کمیونٹی کے زوال ماندہ رویوں اور ادب کے حوالے سے غیرسنجیدگی کو زیر بحث لاۓ ہیں۔ کتاب کے تیرہ افسانوں میں سے کچھ افسانے ہمارے اجتماعی رویوں کو زیر بحث لا رہے ہیں اور بعض افسانے انفرادی سطح پر ہمارے معاملات کو زیر بحث لا رہے ہیں۔ لیکن افسانہ نگار کا زیادہ جھکاٶ اجتماعیت کی طرف ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ زیادہ تر افسانے انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف سفر کرتے محسوس ہوتے ہیں یعنی جزو سے کل کی طرف سفر۔ جیسے افسانہ ”ڈراکل“ کا آغاز تو مرکزی کردارکے خوف سے ہوتا ہے جس کا سبب بچپن میں دیکھا گیا ایک قتل کا منظر ہے لیکن افسانے کے اختتام پر یہ خوف دہشت گردی کے بھیانک واقعہ کے بعد بے خوفی میں بدل جاتا ہے۔ یہ افسانہ ہماری اجتماعی نفسیات میں اس طرح ڈھلتا ہے کہ ڈیڑھ دہاٸی قبل دہشت گردی کے واقعات نے پوری قوم کو اس قدر بےحِس اور بے خوف کر دیا تھا کہ انسان کی موت فقط ایک نمبر رہ گٸی تھی۔ ایسے ہی افسانہ ”جگنواں دا قتل “ کا آغاز تو ایک بچے کی تربیت کے حوالےسے ہوتا ہے کہ بچے کی ماں اسے یہ سمجھاتی ہے جگنووں کو اپنے شوق کے تحت پکڑنے اور مارنے سے خدا ناراض ہوتا اور قحط پڑ جاتا ہے۔ یہ افسانہ بھی اپنے اختتام تک آتے آتے ملکی سطح پر پڑنے والے قحط کو ملک کے لوگوں کے غیر انسانی رویوں کے ساتھ جوڑ کر افسانے کی معنویت کو ابھارتا ہے۔ افسانہ ”رام ن ج دی“ تقسیم ہند سے جڑے انسانی المیے اور اس سے جڑی نفسیاتی الجھن کا بیانیہ ہے۔ افسانہ ”بگھیاری “ جانور اور انسان کی گہری محبت کا بیان ہے جس میں ایک ہلکایا کتا اپنے پاگل پن میں مالک پر حملہ کرنے سے گریزاں ہے۔ افسانہ ” آر دے نہ پار دے“ کا موضوعاتی کینوس بہت وسیع ہے جس میں دو دیہاتوں کی آپسی چپقلش بھی ہے، پارٹیشن کا المیہ بھی ہے، کرونا وبا بھی ہے، مہاجروں کی آباد کاری اور ان سے جڑے مساٸل بھی ہیں اور علاقاٸی تفاخر بھی ہے۔ اس افسانے کا زمان پچہتر سالوں پر محیط ہے۔ یہ افسانہ اپنی سنبھال میں طاہر سندھو کے لیے ایک مشکل افسانہ رہا ہو گا کہ افسانے میں موضوعات بہت زیادہ ہیں ان کے باہمی ربط کو برقرار رکھنا افسانہ نگار کے لیے مشکل رہا ہوگا لیکن طاہر سندھو نے اس مشکل کو خوب نبھایا ہے۔ زبان کا برتاٶ بڑا سیدھا سادا اور عام فہم ہے۔ مشکل پنجابی الفاظ سے گریز کا عمل پوری کتاب میں واضح نظر آتا ہے۔ کتاب کی اشاعت سلیکھ پبلشرز نے کی ہے
بہت عمدہ