NE

News Elementor

What's Hot

کہ خوشی سے مر نا جاتے گر اعتبار ہوتا۔

Table of Content

Author

پاکستانی ریاست اس وقت ٹی ایل پی کے مظاہرین پر گولیاں برسانے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں طالبان کے خلاف آپریشن کررہی ہے۔ ایک طرف اندرونی طور پر یہ کہا جارہا یے کہ یہ شر پسندوں کے خلاف آپریشن ہے تو دوسری جانب افغان طالبان پر یہ الزام لگایا جارہا یے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کروارہے ہیں۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی ریاست اب انتہا پسندی کے خلاف ایک ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے جارہی ہے؟
یہ فلم ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ افغان “جہاد” کے نام پر امریکی ڈالروں کے ذریعے افغانستان کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ پورے خطے میں عسکری گروہوں کی بھرمار سے بے انتہا نقصان کروایا گیا۔ جب 9/11 کے بعد امریکہ سے سخت فون کال آئی تو نام نہاد جہاد کو راتوں رات دہشت گردی میں تبدیل کرکے ڈالر بٹورے گئے۔ ملک بھر میں لبرل دانشوروں نے کہا کہ اب امریکہ افغانستان میں جمہوریت بھی لائے گا اور پاکستان خطے سے انتہا پسندی بھی ختم کرے گا۔ وہ بھول گئے کہ امریکہ کو ان کاموں میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے ایک طرف طالبان کو مارنے کے پیسے لئے تو دوسری جانب کئی طالبان رہنماؤں کو پناہ دی جس کی وجہ سے مسلسل آپریشنز کے باوجود شدت پسندی بڑھتی گئی۔ یہ بیانیہ بنایا گیا کہ سکولوں میں قتل عام کرنے والے اور فوجیوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والے bad Taliban ہیں جبکہ امریکہ سے لڑنے والے good Taliban ہیں۔ بیڈ طالبان کے خلاف آپریشن کی آڑ میں اندرونی معاملات کو قابو میں لیا گیا جبکہ گڈ طالبان کی حمایت کرکے افغانستان کے اندر مسلسل انتشار جاری رکھا گیا۔ جب گڈ طالبان جیت گئے تو کہا کہ غلامی کی زنجیریں توڑ دی گئی ہیں جبکہ کابل کے ہوٹل میں چائے پی کر جشن منایا گیا۔
لیکن اب وہی گڈ طالبان نا صرف بیڈ طالبان کو پناہ دے رہے ہیں بلکہ ہندوتوا نظریہ رکھنے والی ہندوستان کی حکومت سے دوستی کا ہاتھ بھی بڑھارہے ہیں۔ اس تاریخی سیکیورٹی فیلیر پر پردہ ڈالنے کے لئے کبھی تمام افغانوں کو ملک بدر ہونے کا حکم صادر کیا جاتا ہے اور کبھی بارڈر پار بمباری کرکے جنگی جنون میں مبتلا کیا جاتا۔ ہم سب نے کہا تھا کہ ہندوستان کا پاکستان کی سرحدوں کو عبور کرکے حملہ کرنا ہر اخلاقی اور قانونی عمل ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے کابل پر حملے کرکے ہم کس اصول کی پاسداری کررہے ہیں؟
ٹی ایل پی والا معاملے بھی ایسا ہی یے۔ نواز شریف کی حکومت کو گرانے کے لئے تحریک کو چابی دی گئی۔ عمران خان کی حکومت میں آنے کے بعد اسی تحریک پر بار بار آپریشن کرکے انہیں چپ کروایا گیا۔ جب عمران خان سے معاملات بگڑ گئے تو خان کے خلاف انہیں پھر سے چابی دی گئی۔ اب جب ٹرمپ پلان کے غزہ پلان کے خلاف وہی ٹی ایل پی نکل رہی کے تو سڑکوں پر ان کا قتل عام کیا جارہا یے۔
میرا منطق یہ بلکل بھی نہیں ہے کہ مذہبی انتہا پسندی سے لڑنا نہیں چاہئے۔ ترقی پسندوں کی تاریخ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بھرپور مزاحمت سے بھری پڑی یے۔ لیکن میں اس دلیل کو ماننے سے انکار کرتا ہوں کہ ریاستی سوچ میں کوئی بنیادی تبدیلی آگئی ہے۔ یہ غلط تصور ہے کہ پاکستان ایک انتہا پسند ریاست ہے۔ انتہا پسند ہونے کے لئے بھی کسی نظریے کی ضرورت ہوتی۔ ہم ایکrent-seeking یعنی کرائے کی ریاست ہیں جو وقت آنے پر جہاد کا نعرہ لگاتی یے اور اگر قیمت اچھی ہو تو ڈرون حملوں کی اجازت سے لے کر مسجدوں پر حملہ آور ہوجاتی ہے۔ اس لئے جو پالیسی بھی بنتی ہے وہ وقتی مفاد سے جڑی ہوتی یے۔ اس وقت طالبان اور ٹی ایل پی سے مسئلہ ہے لیکن کل سیاسی انجینیرنگ کے لئے ان کی ضرورت پڑی تو ان کا استعمال ایک بار پھر شروع ہوجائے گا۔
اگر ریاست کی نیچر کو سمجھنا ہے تو دیکھیں کس طرح بیک وقت چین سے اسلحہ لے رہے ہیں اور دوسری طرف امریکہ کو معدنیات سے لے کر بلوچستان میں بیس دینے کی بات کررہے ہیں۔ اور جس قسم کی چاپلوسی شہباز شریف نے کل ٹرمپ کی کردی ہے اس کے بعد ٹرمپ کے قریبی رفقا کے لئے مشکل بڑھ جانی ہے کہ وہ اس گفتگو کا مقابلہ کیسے کریں۔ جہاں تک مذہبی انتہا پسندی کیسے لڑنے کا سوال ہے، وہ مقامی لوگوں کی رائے، ماضی کے اوپر بحث اور احتساب (truth and reconciliation commission)، عالمی معادوں میں مقامی قیادت کی شمولیت، اور سول سوسائٹی اور میڈیا کو رسائی دیئے بغیر ناممکن ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک جانب قوم سے بیرونی انتشار پسندوں کے خلاف ژمایت کی اپیل کی جارہی ہو اور دوسری جانب پختون خواہ کے اندر پی ٹی آئی کے عوامی مینڈیٹ کو چوری کرنے کی پلاننگ کی جارہی ہو۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی دونوں ملکوں کے لئے تباہ کن ہوگی۔ پاکستان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے توبہ کرکے برادرانہ تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دوسری جانب افغانستان کو کسی بھرم میں نہیں رہنا چاہئے کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ دے کر خیر کی توقع کرے۔ باچا خان نے کابل اور اسلام آباد دونوں کو خبردار کیا تھا کہ پختونستان اور جہاد کے نام پر عام عوام کو بیوقوف بنانا بند کیا جائے، ایک دوسرے کی سالمیت کو قبول کیا جائے اور وسائل عوام کی خوشحالی پر مرکوز کئے جائیں۔ اس سوچ کی آج ہمیں اشد ضرورت یے۔ ورنہ موت کے سوداگر اپنے پاپا جونز بناتے رہیں گے اور غریب کے بچے ایک بڑے کھیل کے اندر اسی طرح مرتے رہیں گے۔

Ammar Ali Jan

Pakistani Political Activist and Historian.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent News

Trending News

Editor's Picks

کہ خوشی سے مر نا جاتے گر اعتبار ہوتا۔

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. پاکستانی ریاست اس وقت ٹی ایل پی کے مظاہرین پر گولیاں برسانے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں طالبان کے خلاف آپریشن کررہی ہے۔ ایک طرف اندرونی طور پر یہ کہا جارہا یے کہ یہ شر پسندوں کے خلاف آپریشن ہے تو دوسری جانب افغان طالبان پر...

مترجم کی موت, جارج سزرٹس، لازلو کراسزنا ہورکائی کے مترجم کا شکوہ

Author Dr. Furqan Ali Khan Medical doctor, activist ,writer and translator جارج سزرٹس کا شکوہ لازلو کراسزنا ہورکائی کے نوبل انعام جیتنے پر میں نے جتنی پوسٹیں لکھی ہیں وہ تقریباً ان کے طویل جملوں میں سے ایک کے طور پر اہل ہیں۔ آج صبح میں اس کے بارے میں مضامین تلاش کر رہا ہوں...

نسل کش صہونی ریاست نے فلوٹیلا پر حملہ کرکے کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. نسل کش صہونی ریاست نے فلوٹیلا پر حملہ کرکے کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس میں پاکستان سے سینیٹر مشتاق خان بھی شامل ہیں جنہیں اسرائیلی ملٹری نے زیر حراست رکھ لیا ہے۔ میرا بہت قریبی دوست، ڈیوڈ ایلڈلر David Adler, کی بھی گرفتاری کی...

کشمیر کے تمام شہریوں، اور خصوصی طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کارکنوں و لیڈران کو مبارک جنہوں نے بہترین حکمت عملی اور ثابت قدمی کے ذریعے حکومت کو ان کے مطالبات منظور کرنے پر مجبور کیا

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. کشمیر کے تمام شہریوں، اور خصوصی طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کارکنوں و لیڈران کو مبارک جنہوں نے بہترین حکمت عملی اور ثابت قدمی کے ذریعے حکومت کو ان کے مطالبات منظور کرنے پر مجبور کیا۔ ان تمام لوگوں کو شرم آنی چاہئے جو مسلسل...

ٹرمپ کے غزہ پلان پر 9 نکات

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. 1۔ یہ معاہدہ فلسطینی قیادت اور عوام کو اعتماد میں لئے بغیر کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ سامراجی  قوتوں اور اس کے حواریوں کی طرف سے غزہ پر مسلط کیا گیا ہے۔ 2 سال کی مسلسل بربریت اور نسل کشی کے بعد حماس اور...

News Elementor

Right Info Desk – A Different Perspective

Popular Categories

Must Read

©2025 – All Right Reserved by Right Info Desk