NE

News Elementor

What's Hot

امریکی نائب صدر جیمز ڈیوڈ وینس نے جرمنی میں مغربی دنیا اور عالمی نظام کے پرخچے اڑا دیئے ہیں

Table of Content

Author

امریکی نائب صدر جیمز ڈیوڈ وینس نے جرمنی کے شہر میونخ میں اپنی تقریر کے زریعے مغربی دنیا اور عالمی نظام کے

 پرخچے اڑا دیئے ہیں۔ میونخ سیکورٹی کانفرنس میں دنیا بھر کے سیاستدان اور سیکورٹی ماہرین موجود تھے اور ان کی طرف سے امید کی جا رہی تھی کہ امریکی نائب صدر پوٹن اور ٹرمپ کی حالیہ فون کال کے تناظر میں اپنے یورپین اتحادیوں کو یقین دہانی کروائیں گے کہ امریکہ انہیں روس کے معاملے میں تنہا نہیں چھوڑے گا۔

ان توقعات کے برعکس جیمز ڈیوڈ وینس  نے اپنی تقریر میں یورپی ممالک پر تنقید کی بھرمار کردی جس میں دو پہلو انتہائی اہم تھے۔ ایک تو اس نے الزام لگایا کہ یورپی حکومتیں تارکین وطن کو یورپ داخل ہونے سے روکنے پر مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں یعنی یورپی تہذیب اب مسلمان اور افریقہ سے آئے ہوئے باشندوں کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ دوسری جانب اس نے کہا کہ یورپ میں آزادی اظہار پر قدغنیں لگ رہی ہیں جس کی مثال اس نے نسل پرستوں پر یورپ کے اندر پابندیوں کا ذکر کر کے دیں اور یہاں تک کہا کہ یورپ میں مسیحی باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ یورپی سیاست دان اس تقریر پر دنگ رہ گئے کیونکہ ایک تو اس میں یہ واضح ہوگیا کہ امریکہ یورپ کی سلامتی کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے اب تیار نہیں اور دوسری جانب یہ بھی کلیئر ہوا کہ اس تقریر میں امریکی نائب صدر یورپ کے اندر بڑھتی ہوئی رجعتی قوتوں کی زبان بول کر انہیں تقویت پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب ٹرمپ پوٹن کو سعودی عرب میں ملنے جارہا یے جبکہ یورپی ممالک نے اس ملاقات کے مقابل ایک اپنی کانفرنس کا اعلان کردیا ہے۔

تاریخی تناظر میں یہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ یورپ کے اندرونی معاملات طے کرنے کے لئے ڈیڑھ سو سال پہلے 1873 میں جرمنی ہی کے ایک شہر برلن میں ایک کانفرنس ہوئی تھی جس کا مقصد افریقہ پر قبضے کے معاملے پر یورپ کے بڑھتے ہوئے اندرونی تضادات کا حل تلاش کرنا تھا۔ لیکن یہ لڑائی ختم ہونے کے بجائے مزید شدت اختیار کر گئی جس کا اظہار 1914 میں پہلی جنگ عظیم کی خوفناک جنگ کے صورت میں نکلا۔ 1920 اور 1930 میں یورپ فاشزم، لبرلزم اور سوشلسٹ کیمپ کی لڑائی کا مرکز بنا جس کا نتیجہ 1939 میں دوسری جنگ عظیم کی صورت میں نکلا جس نے یورپ کی معیشت کو تباہ کردیا۔ اسی پس منظر میں امریکہ اور سوویت یونین سوپر پاور کے طور پر سامنے آئے اور عالمی معمالات کی سمت طے کرنے میں یورپ کو پیچھے چھوڑ گئے۔

یہ وہ وقت تھا جب سوشلسٹ نظریات کی حمایت یورپ اور تیسری دنیا میں اپنے عروج پر تھی۔ سوویت یونین نے ہٹلر کو شکست دی تھی جبکہ کیمونسٹ گروہوں نے مشرقی اور مغربی یورپ میں فاشسٹوں سے لڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور تیسری دنیا میں بڑھتی ہوئی سامراج مخالف تحریک کا جھکاؤ بھی سوشلسٹ رجحان کی طرف تھا۔ اس وقت نیٹو کی صورت میں مغربی اتحاد بنایا گیا جس کی سربراہی امریکہ نے سنبھالی اور اپنی جارحانہ عزائم کو جمہوریت اور آزادی جیسے لبادوں میں اوڑھا۔

سوشلزم کے اس مشترکہ خطرے نے یورپ کو امریکی بی ٹیم بنادیا۔ یورپ بھر میں امریکی فوجی اڈے بنائے گئے، حتی کہ یورپ، اور خصوصی طور پر مغربی جرمنی میں ایٹمی ہتھیار بھی نصب کردئے گئے۔ امریکہ نے یورپ کی سلامتی کی رکھوالی کے بدلے دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کو کچلنے میں یورپ سے مدد لی۔ مثال کے طور پر ایران میں ترقی پسند صدر محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹانے میں امریکہ سے زیادہ برطانوی حکومت کا ہاتھ تھا۔ اسی طرح مشرقی وسطی سے لے کر خلیج میں برطانیہ نے امریکہ کے لئے دوسری جنگ عظیم کے بعد نیٹ ورک بنانے میں اہم۔ کردار ادا کیا جبکہ فرانس، بیلجیئم اور پرتگال نے یہی کردار افریقہ میں ادا کیا۔

ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس اتحاد کی سرمایہ داری اور سامراج کو قائم رکھنے کی خواہش کے سوا کوئی پختہ نظریاتی بنیادیں نہیں تھیں۔ تیسری دنیا میں خلیجی بادشاہتوں سے لے کر پاکستان جیسے ممالک میں فوج اور مذہب کے استعمال کی تاریخ سب کو معلوم ہے۔ لیکن یورپ کے اندر بھی معاملات کچھ زیادہ مختلف نہ تھے۔ اٹلی میں کیمونسٹ پارٹی کو اقتدار میں روکنے کے لئے 1948 کے الیکشن میں کھلی مداخلت کے ساتھ ساتھ فاشسٹ گروہوں کو بھی تیار کیا گیا تاکہ ترقی پسند متبادل کو روکا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہٹلر کے فوجی افسر ایڈولف ہیوسنگر کو نیٹو کی ملٹری کمیٹی کا چئیرمین بنادیا کیونکہ وہ سوشلسٹوں سے لڑنے میں مہارت رکھتا تھا۔

لیکن اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ مغربی اتحاد میں تین ایسے ممالک شامل تھے جن میں بدترین امریکہ نواز آمریتیں قائم تھیں۔ یونان میں برطانیہ کی مدد سے امریکہ نے تمام حریت پسند سوشلسٹوں، جنہوں نے فاشزم کا مقابلہ کیا تھا، کو ہٹا کر ان فاشسٹوں کو اقتدار میں بٹھا دیا فیڈل کاسترو بظاہر جن کے خلاف دوسری جنگ عظیم لڑی گئی تھی۔ اسپین میں جنرل فرانکو کی حکومت کو شامل کیا گیا جس نے اسپین میں 1930 کی دہائی میں جمہوریت کا گلہ گھونٹا اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کیں۔ اسی طرح پرتگال میں فوجی آمریت قائم تھی جو نہ صرف اپنے شہریوں پر ظلم و جبر کرتی تھی بلکہ امریکی پشت پناہی کے ساتھ افریقہ کے اندر ایک بدترین کالونیل نظام کی آخری شکل تھی۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ افریقہ میں پرتگال کی لوٹ کھسوٹ کو شکست دینے میں فیڈل کاسترو اور کیوبا نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا جس پر پھر کبھی لکھوں گا۔

اس تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ 1945 کے بعد مغربی اتحاد کا کوئی نظریہ نہ تھا بلکہ اپنے منافع کے حصول میں اور تیسری دنیا کے انقلابات کے خوف میں انہوں نے اندرونی نظریاتی تضادات کو دبا کر تمام ردانقلابی قوتوں کو جمع کیا ہوا تھا۔ اس کو ہم suppression of ideology بھی کہہ سکتے ہیں۔ جمہوریت اور آزادی صرف فراڈ تھا جس کے پیچھے مقصد سرمایہ دارانہ نظام کو دنیا پر مسلط کرنا تھا۔ اس اتحاد کی بنیاد 2008 کے عالمی معاشی بحران کے بعد بہت کمزور پڑ گئی جب یہ واضح ہوگیا کہ دنیا بھر میں تو دور کی بات، مغرب کے اندر بھی ایک عام شخص کو یہ نظام اچھی زندگی دینے میں ناکام ہے۔ ایسے میں تین رجحانات میں فرق واضح ہونا شروع ہوا۔ ایک وہ جو سرمایہ داری نظام کے بدترین استحصال کا دفاع کرتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ جمہوریت، انسانی حقوق اور multiculturalism کی بھی حمایت کرتے ہیں، یعنی لبرل سوچ کے حامل لوگ۔ دوسری جانب فاشسٹ رجحان بھی سامنے آیا جس نے سرمایہ دسری پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ سارا غصہ تارکین وطن اور multiculturalism پر ڈال دیا۔ تیسری جانب سوشلسٹ رجحان بھی بہت عرصے بعد ایک قوت کے طور پر ابھرا جس نے تارکین وطن کو نشانہ بنانے کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام اور کے حواریوں کو سماجی اور معاشی بحران کا ذمہ دار قرار دیا۔

امریکی نائب صدر جیمز ڈیوڈ وینس کی تقریر کو ایک لحاظ سے مغرب میں سرکاری سطح پر نظریاتی اختلافات کی واپسی کے اعلان کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جس طرح اس نے کھل کر نسل پرستوں کی حمایت کی، اس سے لبرل دنگ رہ گئے۔ ایلون مسک، جس کو امریکہ کا shadow president بھی کہا جارہا ہے، جرمنی سے لے کر برطانیہ تک کھل کر یورپ میں نسل پرستوں کی حمایت کررہا ہے جس پر لبرل شرمندگی اور غصے کے ملے جلے جذبات کا اظہار کررہے ہیں کیونکہ وہ دہائیوں سے اس گندے سامراجی کھیل کا خود بھی حصہ رہے ہیں۔ اب مغرب کے اندر ہر ملک ہنگامی بنیادوں پر اس نئی حقیقت کے پیش نظر اپنی الگ حکمت عملی بنانے جارہا ہے جس میں وہ فیصلہ کریں گے کہ امریکہ کے ساتھ کس قسم کے تعلقات ہوں گے، روس اور یوکرائن کا کیا کرنا ہے، چین کے ساتھ کیسے تعلقات ہونے چاہئیں وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اب 1945 سے قائم “مغربی بلاک” کی کوئی جامع حقیقت یا حیثیت نہیں رہی بلکہ یہ باقی دنیا کی طرح کئی انفرادی ممالک کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں رہا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ (return of ideology) کے ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے ہم 

(End of the Western Block) 

اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

آخر میں نظریات کی لڑائی کے حوالے سے کارل مارکس کا ذکر کرنا اہم ہے۔ مارکس نے کہا تھا کہ لبرل فکر کے لوگ سرمایہ داری کی زنجیروں پر جعلی پھول لگا کر غلامی کو قابل برداشت بنانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ رجعتی قوتیں ان پھولوں کو ہٹا کر ان زنجیروں سے کسی ہمدردی کی امید یا توقع بھی ختم کردیتی ہیں۔ اس کے برعکس انقلابیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان مصنوعی پھولوں کو ختم کرکے غلامی کی زنجیروں کو توڑا جاسکے تاکہ انسانیت حقیقی پھولوں سے لطف اندوز ہوسکے۔ مغربی بلاک کے خاتمے کے بعد جعلی پھولوں کا کاروبار کرنے والی لبرل سوچ کی شکست یقینی ہے۔ آنے والے وقتوں میں یورپ اور دنیا بھر میں اصل لڑائی زنجیروں کو کسنے اور پھولوں کو بکھیرنے والوں کے درمیان ہوگی

Ammar Ali Jan

Pakistani Political Activist and Historian.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent News

Trending News

Editor's Picks

کہ خوشی سے مر نا جاتے گر اعتبار ہوتا۔

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. پاکستانی ریاست اس وقت ٹی ایل پی کے مظاہرین پر گولیاں برسانے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں طالبان کے خلاف آپریشن کررہی ہے۔ ایک طرف اندرونی طور پر یہ کہا جارہا یے کہ یہ شر پسندوں کے خلاف آپریشن ہے تو دوسری جانب افغان طالبان پر...

مترجم کی موت, جارج سزرٹس، لازلو کراسزنا ہورکائی کے مترجم کا شکوہ

Author Dr. Furqan Ali Khan Medical doctor, activist ,writer and translator جارج سزرٹس کا شکوہ لازلو کراسزنا ہورکائی کے نوبل انعام جیتنے پر میں نے جتنی پوسٹیں لکھی ہیں وہ تقریباً ان کے طویل جملوں میں سے ایک کے طور پر اہل ہیں۔ آج صبح میں اس کے بارے میں مضامین تلاش کر رہا ہوں...

نسل کش صہونی ریاست نے فلوٹیلا پر حملہ کرکے کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. نسل کش صہونی ریاست نے فلوٹیلا پر حملہ کرکے کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس میں پاکستان سے سینیٹر مشتاق خان بھی شامل ہیں جنہیں اسرائیلی ملٹری نے زیر حراست رکھ لیا ہے۔ میرا بہت قریبی دوست، ڈیوڈ ایلڈلر David Adler, کی بھی گرفتاری کی...

کشمیر کے تمام شہریوں، اور خصوصی طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کارکنوں و لیڈران کو مبارک جنہوں نے بہترین حکمت عملی اور ثابت قدمی کے ذریعے حکومت کو ان کے مطالبات منظور کرنے پر مجبور کیا

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. کشمیر کے تمام شہریوں، اور خصوصی طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کارکنوں و لیڈران کو مبارک جنہوں نے بہترین حکمت عملی اور ثابت قدمی کے ذریعے حکومت کو ان کے مطالبات منظور کرنے پر مجبور کیا۔ ان تمام لوگوں کو شرم آنی چاہئے جو مسلسل...

ٹرمپ کے غزہ پلان پر 9 نکات

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. 1۔ یہ معاہدہ فلسطینی قیادت اور عوام کو اعتماد میں لئے بغیر کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ سامراجی  قوتوں اور اس کے حواریوں کی طرف سے غزہ پر مسلط کیا گیا ہے۔ 2 سال کی مسلسل بربریت اور نسل کشی کے بعد حماس اور...

News Elementor

Right Info Desk – A Different Perspective

Popular Categories

Must Read

©2025 – All Right Reserved by Right Info Desk