NE

News Elementor

What's Hot

یوکرائن کے صدر وولوڈومر زیلینسکی Volodymyr Zelensky تاریخ میں ایک عبرت کا نشان بننے جارہا ہے

Table of Content

Author

یوکرائن کے صدر وولوڈومر زیلینسکی Volodymyr Zelensky تاریخ میں ایک عبرت کا نشان بننے جارہا ہے۔ چند دن پہلے تک یہ شخص مغربی دنیا کا ہیرو تصور کیا جاتا تھا جس کے کہنے پر صرف امریکہ نے ساڑھے تین سو ارب ڈالر خرچے تھے۔ مغرب کے ہر بڑے شہر میں دکانوں سے لے کر گلیوں تک آپ کو یوکرائنی جھنڈے اور روس مخالف پلے کارڈ آویزاں نظر آتے تھے۔ مغربی دنیا کے تمام لیڈران اس کے ساتھ فوٹوشیشن کروانے کو اعزاز سمجھتے تھے تاکہ اپنی عوام کو یہ بتا کر مقبولیت حاصل کی جائے کہ مشکل کی اس گھڑی میں وہ یوکرائنی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ سب اس وقت ہورہا تھا جب وہی لیڈران اپنے ممالک میں تارکین وطن کے خلاف نفرت پھیلا رپے تھے اور غزہ میں نسل کشی کی کھل کر حمایت کررہے تھے۔ لیکن لاڈلے زیلینسکی کے لئے ہر طرح کی حمایت دستیاب تھی اور مالی امداد کے ساتھ ساتھ میڈیا اور بیانئے کی سطح پر بھی اس کے لئے اتنی حمایت موجود تھی کہ لگتا تھا کہ شائد یہ دور حاضر کا نیلسن منڈیلا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زیلینسکی کے خلاف ٹرمپ کے بیانات مغربی لبرلز پر ایک بجلی کی طرح گرے ہیں۔ اس بظاہر نیک انسان کو ٹرمپ نے ناکام کامیڈین، الیکشن کے بغیر مسلط آمر، مغرب کو بیوقوف بنانے والا فنکار، اور روس کے ساتھ جنگ میں تباہی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ لبرل امریکہ کے اہم ترجمان فرید زکریا نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے بیانات breathtaking ہیں یعنی یہ انتہائی غیر معمولی ہیں۔ اوپر سے ٹرمپ نے جنگ بندی کے لئے پوٹن سے مذاکرات شروع کردئے ہیں اور کہا ہے کہ فیصلہ ہم کریں گے، اور زیلینسکی کو ہماری بات ماننی پڑے گی اگر وہ چاہتا ہے کہ یوکرائن کا وجود برقرار رہے۔ زیلینسکی نے شروع میں تھوڑی سی چوں چاں ضرور کی ہے لیکن آج امریکی نمائندے جنرل کیلوگ کے ساتھ میٹنگ کے بعد اس نے کہا کہ وہ اپنے امریکی “دوستوں” کے ساتھ مل کر مسائل کو مل کر حل کرے گا۔ یعنی “سالمیت کو خطرے” کے نام پر 3 سال امریکی ڈالروں پر روس سے بدترین جنگ لڑی جس میں 10 لاکھ کے قریب جانوں کا ضیاع ہوا لیکن اب جب سالمیت تو دور کی بات، ٹرمپ نے یوکرائن کو صفحہ ہستی سے مٹا دینی کی دھمکی دی ہے تو بھیگی بلی بن کر مذاکرات کی بات کررہا یے۔

میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ غیر معمولی پیش رفت یے، کوئی ایک صدر سے دوسرے کی policy shift نہیں بلکہ ایک paradigm shift ہے۔ ان کو کئی حوالوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے America First کے نعرے کے ساتھ یہ باور کروانا شروع کردیا ہے کہ امریکہ عالمی نظام کو اپنے مفاد میں چلائے گا اور عالمی آرڈر کو مستحکم رکھنے کے لئے اب بھاری معاوضہ لے گا۔ یوکرائن سے امریکہ کو کچھ خاص حاصل نہیں ہورہا تھا ماسوائے اس امید کے کہ روسی ریاست کو تباہ کرکے اس خطے کے وسائل کو 1991 کے بعد ایک بار پھر پوری طرح سے اپنے قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ جب یہ طے ہوگیا کہ روس کو شکست دینا اس وقت ناممکن لگ رہا ہے تو یہ مہنگی پالیسی تبدیل کرلی گئی۔ اس طرح جمہوریت اور آزادی کی لڑائی راتوں رات ایک “یوکرائنی آمر” کے اکسانے پر کی گئی ایک “غلطی” میں تبدیل ہوگئی اور ایک دم سے ہیرو زیرو میں تبدیل ہوگیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ یورپ نے پچھلے 80 سالوں سے دفاع کی زمہ داری امریکہ کو دی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ اس نئی صورتحال کے لئے تیار نہ تھے۔ اب یہی خوف یورپ کو ڈرا رہا یے کہ اگر بغیر کسی بحث یا مشاورت کے بادشاہ سلامت یوکرائن کے حوالے سے حکم صادر کرسکتا ہے تو کل کو ہمارے ساتھ بھی یہ سلوک کیا جاسکتا ہے۔ 1945 سے امریکی یورپی تعلقات روس کے خطرے کے اردگرد قائم تھے اور اس نئی پیش رفت کے بعد یہ تعلقات اگلے کچھ عرصے میں مزید تناو کا شکار رہیں گے کیونکہ ان بنیاد اب کمزور ہوگئی ہے۔ یہاں پر یہ بات کرنا بھی اہم ہے کہ ایک بار پھر واضح ہورہا ہے کہ دنیا کے اندر sovereignty آج بھی ایک عالمی بادشاہت کی طرح چل رہی ہے جس کا بے تاج بادشاہ وائٹ ہاؤس میں بیٹھتا ہے۔ لبرلز کے فیورٹ باراک اوبامہ نے بھی عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کیا جبکہ کئی دہائیوں سے امریکہ 80 سے زائد ممالک میں مختلف حکومتوں کے تختے الٹوا چکا ہے۔ لیکن آج تک اس کو کون پوچھ سکا؟ جرمن فلسفی Carl Schmitt کہتا تھا کہ حقیقی بادشاہ Sovereign وہی ہوتا ہے جس کا احتساب نہ ہوسکے اور یہ رول کئی دہائیوں سے امریکہ کر رہا ہے بس فرق یہ ہے آج کل کے فیصلے امریکی لبرلز کو پسند نہیں آرہے۔

زیکینسکی اپنے عروج پر ایک آمر سے کم نہ تھا۔ 2014 میں جب سی آئی اے نے رجیم چینج آپریشن کروایا تو اس وقت کے صدر Viktor Yanukovych کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ 11 پارٹیون پر روس نواز ہونے کے الزامات میں پابندی لگائی گئی۔ اسی طرح زیلینسکی نے 2022 میں کیمونسٹ پارٹی، جو کہ 1990 کی دہائی میں سب سے بڑی پارٹی تھی اور پارلیمنٹ کا حصہ تھی، پر پابندی لگا دی اور الیکشن کروانے کے بجائے جنگ کی آڑ میں ایمرجنسی لگا کر حکومت کرنے لگا۔ اس کا خیال تھا کہ امریکی تجوریاں اب اس کے لئے کبھی بند نہ ہوں گی۔ لیکن اپنے ملک کو مکمل طور پر تباہ کرووانے اور 10 لاکھ جانوں کے ضیاع (ڈھائی لاکھ اموات اور آٹھ لاکھ زخمی) کے بعد اس بیچارے کا یہ حال ہے امریکہ نہ صرف اس پر الزامات لگارہا ہے بلکہ اپنی دی ہوئی امداد کو یوکرائن کے معدنیات پر قبضے کے ذریعے واپس لینے کی بھی کوشش کرہا ہے۔ اس کی حمایت میں برطانوی وزیراعظم Keir Starmer نے بیان دیا ہے کہ وہ “یورپ کی خاطر” یوکرائن کا دفاع کرنے کے لئے تیار ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کی اپنی عوام نے Brexit کے حق میں ووٹ دے کر 10 سال پہلے ہی یورپ کو خیرباد کہہ دیا تھا۔

بس یہ ضرور ہوا ہے کہ زیلینسکی کے ذریعے امریکہ کی دفاعی انڈسٹری نے اربوں ڈالر کما لئے لیکن اب اس تباہی کے بعد reconstruction انڈسٹری پیسے بٹورنے کے لئے تیار ہے جس میں زیلینسکی ایک چھوٹی رکاوٹ ہے۔ یہی فارمولا عراق میں لگا جہاں پہلے war industry نے تباہی کرکے پیسے بنائے اور پھر ،Halliburton اور تیل کی کمپنیوں نے reconstruction کے نام پر اربوں ڈالر کمائے۔ عراق کی “جمہوری حکومتوں” کی طرح زیلینسکی کی حکومت بھی ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوئی ہے۔

ٹیشو پیپر سے یاد آیا کہ پاکستانی حکمران ٹیشو پیپر بننے میں سب سے آگے رہے ہیں۔ ہماری اپنی تاریخ کے دو اہم ترین زیلینسکی، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف ہیں جنہوں نے امریکی پراکسی جنگوں میں پاکستان کو دھکیلا۔ اپنے اقتدار کے دوران ان کو لگتا تھا کہ وہ “free world” کے لئے ناگزیر ہیں لیکن جیسے ہی ان سے محدود کام لے لیا گیا، پھر بدترین طریقے سے انہیں راستے سے ہٹایا گیا۔ اور ان کی غلطیوں کا خمیازہ آج تک پاکستان ڈالری جنگوں، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور جمہوری قدروں کی کمزوری کی شکل میں بھگت رہا یے۔

یہ یاد رکھیں کہ ٹرمپ کی ان حرکتوں کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ امریکہ اپنے سامراجی عزائم سے پیچھے ہٹ رہا ہے بلکہ جیسے میں پہلے کئی بار لکھ چکا ہوں، ابھی بھی اصل ہدف چین ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے روس کو چین سے دور کیا جائے اور یورپ میں پیسے خرچنے کے بجائے ایشیا پر فوکس کیا جائے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کی اہمیت بھی بڑھے گی اور ہمیشہ کی طرح وطن عزیز میں حکومت سے اندر اور حکومت سے باہر کئی افراد زیلینسکی بننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ لیکن انہیں یوکرائن کی حالت دیکھ کر سمجھ لینا چاہئے کہ امریکی پراکسی بننے سے نہ صرف وہ ہمارے خطہ کا نقصان کریں گے بلکہ اپنے آپ کو بھی رسوا کروائیں گے۔ اس سب کے باوجود جو لوگ امریکی جارحیت کے ایجنٹ بنیں، ان کا مقام تاریخ کا کوڑا دان ہی ہوگا۔

Ammar Ali Jan

Pakistani Political Activist and Historian.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent News

Trending News

Editor's Picks

کہ خوشی سے مر نا جاتے گر اعتبار ہوتا۔

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. پاکستانی ریاست اس وقت ٹی ایل پی کے مظاہرین پر گولیاں برسانے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں طالبان کے خلاف آپریشن کررہی ہے۔ ایک طرف اندرونی طور پر یہ کہا جارہا یے کہ یہ شر پسندوں کے خلاف آپریشن ہے تو دوسری جانب افغان طالبان پر...

مترجم کی موت, جارج سزرٹس، لازلو کراسزنا ہورکائی کے مترجم کا شکوہ

Author Dr. Furqan Ali Khan Medical doctor, activist ,writer and translator جارج سزرٹس کا شکوہ لازلو کراسزنا ہورکائی کے نوبل انعام جیتنے پر میں نے جتنی پوسٹیں لکھی ہیں وہ تقریباً ان کے طویل جملوں میں سے ایک کے طور پر اہل ہیں۔ آج صبح میں اس کے بارے میں مضامین تلاش کر رہا ہوں...

نسل کش صہونی ریاست نے فلوٹیلا پر حملہ کرکے کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. نسل کش صہونی ریاست نے فلوٹیلا پر حملہ کرکے کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس میں پاکستان سے سینیٹر مشتاق خان بھی شامل ہیں جنہیں اسرائیلی ملٹری نے زیر حراست رکھ لیا ہے۔ میرا بہت قریبی دوست، ڈیوڈ ایلڈلر David Adler, کی بھی گرفتاری کی...

کشمیر کے تمام شہریوں، اور خصوصی طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کارکنوں و لیڈران کو مبارک جنہوں نے بہترین حکمت عملی اور ثابت قدمی کے ذریعے حکومت کو ان کے مطالبات منظور کرنے پر مجبور کیا

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. کشمیر کے تمام شہریوں، اور خصوصی طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کارکنوں و لیڈران کو مبارک جنہوں نے بہترین حکمت عملی اور ثابت قدمی کے ذریعے حکومت کو ان کے مطالبات منظور کرنے پر مجبور کیا۔ ان تمام لوگوں کو شرم آنی چاہئے جو مسلسل...

ٹرمپ کے غزہ پلان پر 9 نکات

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. 1۔ یہ معاہدہ فلسطینی قیادت اور عوام کو اعتماد میں لئے بغیر کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ سامراجی  قوتوں اور اس کے حواریوں کی طرف سے غزہ پر مسلط کیا گیا ہے۔ 2 سال کی مسلسل بربریت اور نسل کشی کے بعد حماس اور...

News Elementor

Right Info Desk – A Different Perspective

Popular Categories

Must Read

©2025 – All Right Reserved by Right Info Desk