Author
عالمی سیاسی اور معاشی نظام war industry کے تابع ہوچکا یے۔ جرمن کمپنی Rheintmetall اس وقت دنیا بھر میں اسلحہ بیچ رہی ہے اور خصوصی طور پر یوکرائن کی جنگ نے اسے انتہا منافع کمانے کے مواقع دیئے ہیں۔ مثال کے طور پر نیوی یارک ٹائمز کے مطابق 2022 میں یوکرائن روس جنگ سے لے کر اب تک اس کمپنی کے سٹاک کی قیت میں 1000 فیصد اضافہ ہوا ہے اور صرف 2024 میں اس نے دس ارب ڈالر کا بزنس کیا ہے۔ 2025 میں اس کمپنی کی پیشن گوئی ہے کہ یہ اپنا منافع مزید 40 فیصد بڑھانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس کے پیچھے یورپی ممالک کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ وہ 800 ارب یورو خرچ کرکے اپنی “دفاعی صلاحیت” کو مظبوط کریں گے۔
ٹرمپ کی طرف سے روس یوکرائن جنگ کے اوپر یورپی بیانئے کو رد کرنے کی وجہ سے یورپ میں بحرانی کیفیت پائی جاتی ہے۔ 1945 سے کے کر اب تک یورپ کو امریکہ کی طرف سے دفاع کی گارنٹی تھی جو اب ختم ہورہی ہے جس کی وجہ سے یورپ ایک بار پھر اپنی جنگی صلاحیت کو مظبوط کرنے جارہا یے۔ یہ حیرانگی کی بات ہے کہ وہ یورپ جس نے 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد کہا کہ اس کے پاس مفت تعلیم، صحت، اور روزگار کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کو روٹی کھلانے کے پیسے بھی موجود نہیں ہیں، اس نے ایک دم سے جنگی جنون کو ہوا دینے کے لیے 800 یورو کا بجٹ بنالیا ہے۔ یہ پیسہ وہ فلاحی منصوبوں سے ہٹاکر اور بینکوں سے مزید قرضے لے کر Rheinmetall جیسی کمپنیوں کو دیں گے جس کے زریعے جنگی جنون منافع میں تبدیل ہوگا۔ یعنی welfare state کی جگہ اب یورپ میں warfare states بنیں گے جو دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ اپنی عوام کے مستقبل کو بھی منافع بخش جنگوں کی بھینٹ چڑھائیں گے۔
یہ ایک خوفناک منظرنامہ ہے کیونکہ نہ صرف اس سے روس اور یورپ کے درمیان براہ راست لڑائی کا خدشہ بڑھے گا، بلکہ یورپ میں غربت میں مزید اضافہ ہوگا جس کا براہ راست فائدہ نسل پرست تنظیموں کو ہوگا۔ اس وقت جرمنی سے لے کر برطانیہ اور فرانس سے لے کر اٹلی تک نسل پرست فاشسٹ تنظیمیں الیکشن میں پہلے یا دوسرے نمبر پر ہیں۔ لبرل اور چند بے وقوف لیفٹ کے لوگ “یوکرائن کی آزادی” کے نام پر اس جنگی جنون کو ہوا دے کر رجعتی قوتوں کے لئے راستہ ہموار کررہے ہیں جو ایک ایسے یورپ میں برسراقتدار آئیں گے جو نہ صرف جنگی جنون میں ڈوبا ہوا ہوگا بلکہ جس کی عسکری صلاحیت ماضی کے مقابلہ میں بہت بڑھ چکی ہوگی۔ یہ حرکت لبرل پہلے امریکہ میں کرچکے ہیں جہاں پر اوبامہ نے جنگی بجٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ surveillance انڈسٹری کو تقویت بخشی اور اب یہ خوفناک عسکری انفراسٹرکچر ٹرمپ اور ایلون مسک کے ہاتھ لگ گیا یے۔
یہ ضروری ہے کہ warfare states کے قیام کے بعد چند نکات کو سمجھا جائے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اب فری مارکیٹ کا فلسفہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا اور سرمایہ داری میں ایک بار پھر کلیدی کردار ریاست ادا کرے گی۔ اسلحے کی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کے ٹھیکے ملیں گے جو ریاست بینکوں سے قرضے لے کر ادا کرے گی۔ یاد رہے کہ اس ریاستی کنٹرول کو سوشلزم نہیں کہا جاسکتا کیونکہ سوشلزم میں ریاست کی معیشت کو پلان کرنے کا بنیادی ہدف عوام کی فلاح ہوتا ہے جبکہ warfare states میں ریاست کا رول بینکوں اور اسلحے کی کمپنیوں کے لئے منافع بخش جنگوں کی تلاش ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال امریکہ سے ملتی ہے۔ ۔ 1929 میں نیو یارک سے شروع ہونے والے مالی بحران نے امریکی انڈسٹری کو تباہ کردیا تھا۔ اس بحران سے امریکہ دوسری جنگ عظیم کے ذریعے نکلا کیونکہ جنگ کا تقاضہ تھا کہ صنعتی پیداوار ایک بار پھر بڑھائی جائے۔1945 کے بعد اسلحے کی انڈسٹری کی خصوصی اہمیت ہے جو پچھلے 80 سالوں سے امریکی معیشت کے انجن کے طور پر کام کررہی ہے۔ سابق امریکی صدر Dwight Eisenhower نے 1961 میں اپنے الوداعی خطاب میں امریکی عوام کو وارننگ دی کہ ان کے ملک میں ایک military industrial complex بن گیا ہے، یعنی صنعت اب مکمل طور پر عسکری سیکٹر کے ساتھ جڑ گئی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر جنگ ختم ہوئی تو صنعت تباہ ہوجائے گی اور اس خدشے کے پیش نظر امریکہ کے لئے لازم ہے کہ وہ مسلسل جنگوں میں ملوث رہے،چاہے ویتنام یا عراق یا لیبیا کی طرح براہ راست فوجی حنلوں کے زریعے، یا دنیا بھر میں اپنے 800 فوجی اڈوں کے ذریعے یا پھر پاکستان اور ہندوستان جیسے ملکوں کو اسلحہ بیچنے کی صورت میں۔
صنعتی ترقی کا یہی راستہ اب یورپ اپنانے جارہا ہے۔ یوکرائن ایک چھوٹا بہانہ ہے۔ جب صنعت جنگ کے تابع ہوجائے گی تو جنگیں لڑنا اور جنگ زدہ علاقوں میں اسلحہ بیچنا ہر یورپی حکومت کی معاشی و سیاسی مجبوری بن جائے گی جس سے اسلحہ بنانے والی کمپنیاں خوب پیسے کمائیں گے۔ یہ پاکستان جیسے ممالک کے لئے بھی بہت خطرناک ڈیولپمنٹ ہے کیونکہ اب جنگ کا کاروبار دنیا میں بڑھے گا اور اس کے سب سے اہم گاہکوں میں سے ایک پاکستان ہے۔ 1953 سے ہی SEATO اور CENTO جیسے عسکری معادوں کے بعد پاکستان نے اپنی قسمت امریکہ کے Military Industrial Complex کے ساتھ جوڑ لی تھی جس کی وجہ سے ملک میں جمہوری قدریں کمزور ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ 1980 کے افغان “جہاد” اور 2001 کے بعد “war on terror” میں پاکستان اسی مغرب انڈسٹری کے لئے ایندھن بنا جس سے چند جنرلوں نے منافع کمایا جبکہ ہزاروں لاکھوں پاکستانی مارے گئے اور افغانستان سمیت پورا خطہ بربادی کی طرف بڑھا۔ چین کے خلاف بڑھتی ہوئی مغربی جارحیت کی مدد کرنے کے لئے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اندر ایک مظبوط رجحان آج بھی موجود ہے جو ایک بار پھر خطے میں اغیار کی جنگوں کو تقویت دے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی نظام کے اندر ٹوٹ پھوٹ اور عسکری حلقوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کی ایک شکل ،Pakistan Green Initiative اور SIFC جیسے منصوبے ہیں جن میں دریاوں، پہاڑوں، معدنیات اور زرعی زمینوں پر قبضے کی صورت میں نظر آرہی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس رجحان کا ملاپ یورپی اور امریکی عسکری حلقوں سے ایک بار پھر ہوجائے جس سے ہمارے خطے میں اسلحے کی کمپنیوں اور ان کے مقامی سہولت کاروں کے منافع کے لئے لوگوں کےخون کی ہولی کھیلی جائے گی۔
لبرل اس وقت جنگی جنون میں مبتلا ہوکر war industry کو مکمل حمایت دے رہے ہیں۔ لیکن یورپ کے اندر ایک بڑھتا ہوا ترقی پسندوں اور لیفٹ کا رجحان موجود ہے جو نسل پرستوں کی نفرت اور لبرلز کی بیوقوفی کے برعکس یہ کھل کر کہہ رہا یے کہ ہمارا دشمن کوئی غیر ملکی نہیں بلکہ وہ کمپنیاں ہیں جو جنگی جنون کو پروان چڑھا کر ہمارے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ یہ تحریک بینکوں اور اسلحے انڈسٹری کی مخالفت کے ساتھ ساتھ یورپ کے اندر امن، صنعتی ترقی اور فلاحی ریاست کی مضبوطی کی بات کررہے ہیں۔ پاکستان میں بھی سب سے بنیادی لڑائی سیاست اور معیشیت کی Demilitarization ہے یعنی پاکستان کو بڑھتی ہوئی عالمی war industry کے تابع ہونے سے بچانا اور معیشیت کو عسکری لوٹ مار سے بچاکر ایک پرامن صنعتی ترقی کے راستے پر ڈالنا۔ سندھ میں Green Pakistan Initiative کے خلاف بڑھتی ہوئی تحریک، جو اب پنجاب کے کسانوں اور گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں بھی مقبول ہورہی ہے، ایک بہت اچھی پیش رفت ہے۔ اس تحریک کو ہمارے خطے، اور خصوصی طور پر پشتون بیلٹ میں، ڈالری جنگوں سے بچانے کی تحریکوں کے ساتھ جوڑنا لازم ہے تاکہ demilitarization کو ایک حقیقت بنایا جاسکے۔
آج کا بنیادی عالمی تضاد عسکری سرمایہ داری militarised capitalism اور امن پسند اور ترقی پسند قوتوں کے درمیان ہوگا۔ یعنی ایک طرف انسانیت کے داعی اور دوسری طرف موت کے سوداگر۔ اس لڑائی میں نیوٹرل رہنا ناممکن ہے