Author
ہم “عسکری سرمایہ داری” کے عہد میں داخل ہوچکے ہیں۔ یمن میں امریکی حملے، یورپ میں جنگی جنون، مشرقی وسطی میں نہ ختم ہونی والی اسرائلی بربریت، لاطینی امریکہ میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت، اور دنیا بھر میں “تجارتی جنگیں” اس بات کی علامت ہیں کہ دنیا ایک نہایت ہی خطرناک موڑ پر کھڑی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی قسمت ان عالمی رجحانات سے جڑی ہوئی ہے اس لئے ہمارے ملک میں بڑھتے ہوئے جبر اور معاشی استحصال کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ حالات کو سمجھ کر آگے کا لائحہ عمل بنایا جاسکے۔
میں کئی بار یہ لکھ چکا ہوں کہ عالمی لبرل آرڈر 1945 کے بعد آج سب سے گہرے بحران سے دوچار ہے۔ اس نظام کے تین اہم جز تھے۔ پہلا تو سوویت یونین اور دیگر سوشلسٹ ریاستوں کے اردگرد گھیرا تنگ کرنا جس کے لئے نیٹو بنائی گئی۔ دوسرا تیسری دنیا کے اندر decolonization یعنی نوآبادیاتی نظام کے خلاف تحریکوں اور حکومتوں کو کمزور کرنا تاکہ ان کو امریکی سامراج کے زیر تسلط رکھا جاسکے۔ اس کام کے لئے انہوں نے سی آئی اے کا بے دریغ استعمال کیا اور تیسری دنیا میں درجنوں حکومتوں کا تختہ الٹایا گیا۔ تیسرا ہدف دنیا بھر میں فری مارکیٹ کا نظام لاگو کرنا تھا جس کا خاص مقصد تیسری دنیا کے وسائل تک مغرب کی رسائی کو ممکن بنانا تھا کیونکہ پچھلے چار سو سال کی مغربی ترقی کی بنیاد دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ گری تھی۔ اس فری مارکیٹ کے نظام کو برقرار رکھنے کے لئے آئی ایم۔ایف سے لے کر WTO جیسے ادارے بنائے گئے۔
ایک ایک کرکے یہ تمام اہداف اور ان سے جڑے مقاصد تیزی سے ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ تمام تر حربوں کے باوجود آج دنیا کے GDP کا 35.6 فیصد حصہ سابقہ تیسری دنیا کے ممالک کے اتحاد BRICS کا ہے جبکہ یورپ اور امریکہ کا حصہ GDP۔ 30 فیصد رہ گیا ہے جو چند سالوں میں کم ہوکر 27 فیصد رہ جائے گا۔ اس تاریخی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ امریکہ اور یورپ کی صعنت کا ایشیا اور دیگر تیسری دنیا کے ممالک میں منتقل ہونا ہے۔ اس زوال کو روکنے کے لئے امریکہ میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ فضول خرچی کم کی جائے اور امریکہ کو ایک بار پھر صنعتی طاقت بنایا بنایا جائے۔ لیکن یہاں پر بھی تضادات سامنے کھڑے ہوگئے ہیں۔ یوکرائن کو تباہ کرنے کے بعد یورپی “سلامتی” سے جس طرح امریکہ دستبردار ہوا ہے، اس سے نیٹو کی حیثیت بہت بڑی طرح متاثر ہوئی یے۔ دوسری جانب کینیڈا میکسیکو چین اور دیگر ممالک پر Tariff لگا کر اپنی صنعت کو بہتر کرنے کے بجائے امریکہ نے دنیا بھر میں تجارتی بحران پیدا کردیا ہے جس سے فری مارکیٹ اور فری ٹریڈ کا معاملہ ختم ہوچکا ہے۔
اس گہرے ہوتے ہوئے بحران کا سب سے خوفناک روپ یورپ میں نظر آرہا ہے جہاں پر ملٹری کو مظبوط کرنے کے لئے 800 ارب یورو خرچ کرنے کی بات ہورہی ہے۔ صرف جرمنی، جہاں پر انتہا پسند قوتیں طاقت کے قریب پہنچ گئی ہیں، 500 ارب یورو خرچ کرے گا۔ یعنی روس اور چین کے خوف سے دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک بار پھر یورپ بڑے پیمانے پر militarised ہوگا۔ یہ وہ براعظم ہے جس نے نا صرف نسل پرستی کی بنیاد پر colonialism کی صورت میں ایک انتہائی استحصالی نظام دنیا بھر میں نافذ کیا (جس کا اہم جز نسل کشی تھا) بلکہ فاشزم جیسی نسل پرستانہ سوچ کو بھی دنیا میں متعارف کروایا۔ آج جب نسل پرستی ایک بار پھر یورپ میں بڑھ رہی ہے، عین اسی وقت یورپ کی معیشت جنگ کے تابع آرہی ہے۔ نتائج خوفناک ہوسکتے ہیں۔
تاریخ صرف آگے نہیں بڑھتی بلکہ کئی بار ردانقلابی ادوار میں regression یعنی شعوری زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس زوال کی ایک نشانی یہ ہے کہ عالمی آرڈر کے بحران کا کوئی حل نکالنے میں مغرب بری طرح ناکام ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ امریکہ میں فلسطین کے حمایتیوں، خصوصی طور پر طالب علموں کے ویزے اور گرین کارڈ منسوخ کرکے قانون اور آئین کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ جدید دور کی خاص ایجاد ہی شہریت کا تصور ہے جس کے زریعے مختلف مزاہب، نسل، اور زبان بولنے والوں کے درمیان باہمی احترام کا رشتہ پیدا ہوتا ہے۔ ٹرمپ کے عہد میں یہ تصور اب ختم ہوکر ایک بار۔پھر قبائلی، نسلی، لسانی اور مذہبی بنیاد پرستی کی شکل میں نظر آرہا یے۔ اس کی ایک بھیانک مثال حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا ایک بیان ہے جس میں اس نے جنوبی افریقہ میں گوروں کے حقوق کی پامالی کی مذمت کی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں پر نسل پرست گوروں نے Apartheid نظام کے تحت کئی دہائیوں حکومت کی اور نیلسن مینڈیلا کو 27 سال جیل میں رکھا۔ نسل پرستی ریاست، زوال زدہ معیشیت، مشرق کا خوف، ایک وسیع ملٹری مشین (صرف امریکہ کے 800 فوجی اڈے موجود ہیں) اور بڑھتا ہوا جنگی جنون آج کے مغرب کے بنیادی جز ہیں۔
اسی پس منظر میں پاکستان کو بھی دیکھنا چاہئے۔ 1953 سے ہی Seato اور CENTO معاہدوں پر پارلیمان سے رجوع کئے بغیر دستخط کرکے ہمارے حکمرانوں نے ملک کا مقدر مغربی جنگوں سے جوڑ دیا ہے۔ ایک ایسا سیکورٹی سٹیٹ بن گیا جس نے نا صرف اغیار کی جنگوں میں ملک کو دھکیلا بلکہ معیشیت پر بھی ڈالری جنگوں کے ذریعے عسکری قبضہ مظبوط کرلیا۔ اندرونی تضادات کا سیاسی حل تلاش کرنے کے بجائے ان تضادات کو ملٹری آپریشینوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی۔
عالمی نظام کے بحران کے پاکستان پر تین اہم اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ایک تو نئی سرد جنگ کے اندر پختونخواہ اور بلوچستان میں ڈیولپمنٹ ختم کرکے دونوں علاقوں کو جنگی محاز بنایا جارہا یے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جنگی جنون اور “ہنگامی صورتحال” کے نام پر وسیع پیمانے پر وسائل کی لوٹ مار کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کی بدترین مثال Green Pakistan Initiative ہے جس میں سندھ کے دریاوں سے لے کر گلگت بلتستان کے پہاڑوں پر اور پنجاب کی زرخیز زمینوں پر قبضہکیا جارہا ہے۔ اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر نہ صرف ایک کٹھ پتلی حکومت بنائی گئی ہے بلکہ ہر آواز اٹھانے والے کو دبایا جائے گا۔ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کی گرفتاری سے لے کر احمد نورانی کے بھائیوں کا اغوا اور صحافی وحید مراد کی گرفتاری, اور ڈاکٹر تیمور رحمان کے خلاف FIA کی طرف سے کاروائی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک نئی خوفناک جنگ کے ساتھ ایک نئے خوفناک جبر کو نافذ کیا جارہا یے۔
اس militarised capitalism (عسکری سرمایہ داری) کے عہد میں عام انسانوں کو شہری تصور کرنے کے بجائے ایک law and order problem کے طور پر دیکھا جائے گا۔ یعنی روز مرہ کی زندگی، اور اس سے نکلنے والے معاشی اور سیاسی تضادات، کو عسکری زاویے کے تابع کئے جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ نسلی اور۔ مذہبی بنیادوں پر سماج میں مزید تقسیم پیدا کی جائے گی تاکہ عوام ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں مصروف رہیں اور اس جبر اور لوٹ مار کے خلاف کوئی اجتماعی متبادل سامنے نا لایا جاسکے۔ کیونکہ یہ ایک عالمی رجحان ہوگا، تو اس میں ہمارے حکمران حسب عادت اپنا حصہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ ان کی خواہش ہوگی کہ یورپ اور امریکہ میں بڑھتے ہوئے جنگی جنون کا فائدہ اٹھاتے ہوتے خطے کو ایک بار پھر ایک منافع بخش جنگی میدان بنایا جائے۔
تاریخ کے اندر جب بھی حکمران طبقات کو موقع ملا ہے، انہوں نے جمہوری اقدار کو کچل کر عوام پر جبر کیا ہے۔ مغرب اپنے زوال سے پہلے دنیا کو hyper-militarization کی طرف دھکیل رہا ہے جہاں ایک بار پھر جمہوری اور اجتماعی قدروں کو پامال کیا جارہا ہے۔ افسوس کے ہمارے کم ظرف حکمران اس خوفناک صورتحال سے بچنے کا لائحہ عمل بنانے کے بجائے اس جنگی جنون کو تقویت دے رہے ہیں تاکہ اپنے شہریوں کی لاشوں کے بدلے ڈالر کمائے جاسکیں۔ اس بحران سے نکلنے کے لئے Green Pakistan Initiative جیسے لوٹ مار کے منصوبوں کے خلاف چلنے والی تحریکوں کو پاکستان اور دنیا بھر میں جنگ مخالف تحریکوں سے جڑنا ہوگا تاکہ حکمران طبقات کا عوام کو اپنے مفادات کے لئے قربان کرنے کا منصوبہ ناکام بنایا جاسکے۔ اگر آج ایک بکھرتی ہوئے سرمایہ داری انسانیت کو بھوک اور جنگ میں دھکیل رہی ہے، تو سوشلزم کی لڑائی کو آج حقیقی معنوں می زندگی، امن اور انسانیت کے دفاع کی لڑائی بننا پڑے گ