Author
اظہر حسین کے افسانوں کا مجموعہ” دنیا رنگ بازی پر قاٸم ہے“ کے بارے اگر یہ کہا جاۓ کہ اس کے ہر ہر صفحے سے لاہور چھلکتا ہے تو بے جا نہ ہو گا، بلکہ یوں کہا جاۓ کہ ہر ہر لاٸن شمالی لاہور کے کلچر، زبان، سوچ، عادات واطوار اور رویوں کی عکاسی کرتی ہے تو یہ بھی غلط نہیں ہوگا، کیونکہ سارے ہی افسانوں کا لوکیل شمالی لاہور کی آبادیاں ہیں۔ مجال ہے جو کوٸی بھی افسانہ گڑھی شاہو اور ہربنس پورہ کی آبادیوں کے پار گیا ہو۔ پورے مجموعہ میں لوکیل کے خصوصی التزام کے سبب ایک بڑا فاٸدہ یہ ہوا ہے کہ زبان کے اظہارمیں افسانہ نگار کو کھُل کھیلنے کا موقع ملا ہے کہ پورے مجموعہ میں لاہور کی گلی محلے کی بول چال کے عام الفاظ اور محاورے خوبصورتی سے برتے گیے ہیں۔ ان تمام الفاظ اور محاروں کا استعمال انتہاٸی بامعنی انداز میں یوں کیا گیا ہے کہ کچھ بھی اوپرا نہیں لگتا بلکہ زبان کے اسی استعمال کے سبب قاری بیانیے کے خاص رنگ میں رنگا جاتا ہے اور فکشن میں زبان کے سبب در آنے والا مصنوعی پن اپنا بوریا بستر سمیٹتا نظر آتا ہے۔ اس بات کو تھوڑا یوں سمجھیں اگر آپ نےپی ٹی وی کے ڈرامے” خواجہ اینڈ سن“، ”اندھیرا اجالا“ اور ”شب دیگ“ دیکھیں ہوں تو کہانی اپنے تہذیبی رچاٶ کا دامن پکڑے مضبوط کھڑی نظر آتی ہے۔ اس مجموعہ میں برتے گیے الفاظ کو سمجھنا لاہوریوں کے لیے تو چنداں مشکل نہیں لیکن کسی دوسرے شہر کے اردو سپیکنگ کے لیے شاٸد دشواری کا سبب ہوں۔ بات کیونکہ شمالی لاہور کے عام بندے کی ہے اس لیے مکالموں یہاں تک کے بیانیے میں بھی لاہوری اردو، پلس لاہوری لہجہ، پلس خاص لاہوری الفاظ کا چناٶ نظر آتا ہے مثلاً
تِنی مِنٹی۔۔۔۔ٹیموں ٹیم۔۔۔۔۔۔ہاری ساری ۔۔۔۔۔یکی کا پارٹ۔۔۔۔۔۔کٹرا۔۔۔۔۔۔سینت ماری۔۔۔بھین یک۔۔۔۔پھٹ کے تنبو ہونا۔۔۔۔گردا گرد ہے،پیتامرد ہے۔۔۔۔۔۔سلام ٹھوک۔۔۔۔۔۔۔۔تھرتھلی ۔۔۔۔۔ناواں نکلنا۔۔۔۔۔۔۔تاری لگواٸی۔۔۔۔۔۔ شاپرواقع ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔دڑنگے لگانا۔۔۔۔۔۔اٹھے پیر ہردم خیر۔۔۔۔۔لہراں بہراں ہر دم خیراں اور اس نوعیت کے درجنوں الفاظ اس مجموعہ میں برتے گیے ہیں۔ جن سے عمومی طور پر لاہور کے افسانہ نگار گریز کرتے ہیں لیکن ان الفاظ کا بہرحال ایک خاص لاہوری ذاٸقہ تو ہے۔
اس کتاب کے زیادہ تر افسانوں کے مرکزی کردار بچے ہیں کل سات افسانوں میں سے چار افسانوں کے مرکزی کردار بچے ہی ہیں، ایک افسانے میں نوجوان مرکزی کردار ہے لیکن اس میں بھی زیادہ تر بچپن کا ہی اظہار ہے، ایک افسانے میں بوڑھا شخص مرکزی کردار ہے جبکہ ایک اور افسانہ ادھیڑ عمر لوگوں کی زندگیوں کو لیے ہوۓ ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں پورے مجموعے پر بچوں کی نفسیات اور ان سے جڑے مساٸل کا رنگ بہت گہرا چڑھا ہوا ہے۔
افسانہ مشن ڈم ڈم اس طبقے کے بچوں کا نماٸندگی کرتا ہے جن کی تعلیم وتربیت کہیں بھی ان کے ماں باپ کی ترجیحات کا حصہ نہیں، جو صبح سے شام تک آوارہ گردی میں مصروف بے مقصدیت کی زندگی گزار رہے ہیں، البتہ نفرت انتقام اور طبقاتی تقسیم ان بچوں کو کس طرح متاثر کرتی ہے یہ افسانہ اس پوری کشمکش کو بیان کرتا ہے۔
افسانہ ”اگڑم بگڑم“ ایک جواریے اور فراڈیے کے بیٹے کی اُس ایک دن کی زندگی کا خلاصہ بیان کرتا ہے جس دن اس کے باپ کو پولیس گرفتار کرتی ہے۔ اس افسانے میں فراڈیے کی نفسیات اور طریقہ واردات کو اچھے طریقے سے بیان کیا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں کبوتر بازی کے فن اور پراٸز بانڈوں کے انعاموں میں گُتھی زندگیاں کیا کیا مقاصد اپنے ساتھ لیے ہیں یہ افسانہ اس سارے منظر نامے کا عمیق مطالعہ کرتا ہے۔
افسانہ ”فیصلہ“ ایک بہن بھاٸی کی ملاقات کابیانیہ ہے جن کے ماں باپ علیحدگی کا فیصلہ کرکے دونوں بچوں کو آپس میں بانٹ چکے ہیں۔ لیکن دونوں بہن بھاٸی اس بٹوارے سے عاجز یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ماں باپ جیسے بھی زندگی گزاریں وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔
افسانہ” منافق کانا “ اَسی کی دہاٸی کے منظر نامے کو بیان کرتا ہے یہ افسانہ بتاتا ہے کہ کس طرح منافق اور ظالم حکمران کا اثر مختلف طبقوں اور انسانوں سے ہوتا ہوتا گلی میں کنچے کھیلتے بچے پر بھی ہوتا ہے۔ بچے کا ماموں افغان جہاد میں مارا جا چکا ہے جس کا صدمہ اس کی ماں کو ہر دوسرے دن رلاتا ہے۔ بچے کا باپ ایک دینی مدرسے میں بچوں کو پڑھاتا ہے جہاں اُسے اُس منافق ملاٸیت کا سامناہے جو سرکار دربار سے قربت کے سبب مختلف ثمرات سمیٹتے ہوۓ سوساٸٹی کو جہنم میں جھونک رہی ہے۔ اور پھر یہی منافقت اور چالاکی بچوں میں سرایت کر کے انھیں کس طرح آلودہ کرتی ہے۔ یہ افسانہ ایک بچے کے ساتھ جُڑ کر ایک پورے عہد کی منافقت، جبر اور انداز حاکمیت کو ہمارے سامنے الف ننگا کر دیتا ہے۔
افسانہ ”دنیا رنگ بازی پر قاٸم ہے“ بہت ہی جامع طریقے سے لاہور کے گلی محلوں کی سیاست، طرز زندگی، پیری مریدی، کونسلری کی سیاست اور آپسی دشمنیوں کو کھول کر بیان کرتا ہے۔
پورا مجموعہ اپنی زبان، تکنیک، ماحول، موضوعاتی تنوع کے اعتبار سے ہمارے عہد کا اہم مجموعہ ہے۔ اظہر حسین کے افسانوں کے اس مجموعہ میں فکشن کے علاوہ آپ کو لاہور کی خاص خوشبو بھی ملے گی جو اظہر حسین کو اس کے ہم عصر لاہوری لکھاریوں سے ممتاز کرتی ہے۔