Author
”سفید جھاگ اس کے ہونٹوں کو ڈھانپ لیتا ہے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے خالق سے مکالمہ شروع کر دیا ہے جبکہ وہ رک رک کر بڑبڑاتا ہے کیامیں اس ریاست کا شہری ہوں کیا آٸین کے یہ حقوق، ہر شخص سے اس کی صلاحیت کے مطابق، ہر شخص کو اس کے کام کے مطابق کا اطلاق مجھ پر نہیں ہوتا، کیا میرے بچوں کے مقدر میں غلامی لکھی ہے؟“اس افسانے کا مرکزی کردار ایک کاٹن فیکٹری کا بیمار مزدور ہے ۔ اسے ہسپتال میں داخلہ بھی مشکل سے ملتا ہے اور مکمل علاج سے پہلے ہی ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا جاتا ہے۔ افسانے کا کمزور پلاٹ یہ بھی ظاہر کرتا ہےکہ افسانہ بس ایک ٹرک تھا جس پر مذہب اور طبقاتی شعور کے وزن کو لادا گیا۔ اگر بغور تمام افسانوں کو دیکھا جاۓ تو تمام افسانے بطور لووڈر ٹرک طبقاتی شعور کندھوں پر لادے اپنے طبقاتی انجام کی طرف رواں دواں ہیں۔ ایک اور افسانہ ”کشید کی ہوٸی زندگی “ بھی کچھ اسی نوع کےمسٸلے کا شکار ہوتا نظر آتا ہے جس کا شکار باقی افسانے ہوے۔ افسانے کا مرکزی کردار جان نامی لڑکا ہے جسے گھر کے حالات کے سبب ایک کوٹھی میں بطور ملازم کام کرنا پڑتا ہے، جہاں وہ امرا کے لاٸف سٹاٸل دیکھ کر بھونچکا رہ جاتا ہے۔ وہیں ایک رانی نامی ملازمہ عورت میں دلچسپی لینے لگتا ہے لیکن جب اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رانی اسے اپنے بیٹے جیساسمجھتی ہے تو وہ شدید مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ بیٹا کہلوانے کے کچھ ہی دن بعد کوٹھی کے سامنے سے یکم مٸی کا جلوس گزرتا ہے جس میں انقلاب کی آمد کے نعرے لگاۓ جا رہے ہوتے ہیں۔ جان سب کام چھوڑ کر یکم مٸی کے جلوس میں شامل ہوکر اپنی پچھلی زندگی سے ربط توڑ کر نٸی منزلوں کا مسافر بن جاتا ہے۔ یہ افسانہ ایک بہترین مثال ہے افسانے کو اس کے منطقی انجام سے دور کرنے کی۔ افسانہ جس طرح ایک بڑی عمر کی عورت اور کمسن لڑکے کی یک طرفہ محبت سے انقلاب کی طرف مڑا ہے اس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار فکشن کی منطق کی بجاۓ اپنی جامد منطق کے زیر سایہ لکھ رہا ہے۔ البتہ پوری کتاب میں ایک افسانہ ایسا ہے جو فکشن کی منطق کے زیر اثر ہے وہ افسانہ ہے ”پیاروں کی موت ہمیں بھی ساتھ لے جاتی ہے“ اس افسانے میں مرکزی کردار اپنے مرے ہوۓ ماں باپ کو یاد کرتے ہوۓ اپنے احساسات کو بیان کر رہا ہے۔ یہ افسانہ کسی سنے سناۓ دکھ کا اظہار نہیں ہے اس افسانے کا دکھ ہڈی بیتی اظہاریہ ہے جو پوری شدت سے قاری پر وارد ہوتا ہے ۔ اردو ادب میں اس موضوع کو لے کر درجنوں افسانے ہیں لیکن یہ افسانہ اپنے اظہار کی تازگی اور اپنوں سے بچھڑنے کے آفاقی دکھ کو پوری شدت سے بیان کرتا ہے۔ یہ کتاب شاید سندھی زبان میں لکھی گٸی ہے جس کا اردو ترجمہ ندیم اختر نے کیا ہے