Author
ابھی حال ہی میں ایلکس ہیلی کے ناول ”Roots“ کا ترجمہ ”اساس“ کے عنوان سے پڑھا جس کے مترجم عمران الحق چوہان ہیں۔ ناول پڑھتے ہوۓ جہاں ناول نگار کی محنت، تحقیق، علم اور کرافٹنگ نے بہت متاثر کیا وہیں ناول پڑھتے ہوۓ دلی طور پر عمران الحق چوہان صاحب کا بھی شکرگزار رہا جنھوں نے ناصرف یہ کہ اس ناول کو ترجمے کے لیے چنا بلکہ ترجمہ کرنے کا حق بھی ادا کیا ۔ ناول کا ترجمہ پڑھتے ہوۓ نا تو کہیں جملے کی روانی مجروح ہوتی نظر آٸی نا ہی کہیں بھرتی کے غیر مانوس یا بھاری بھرکم الفاظ ٹھونسنے کی کوشش نظر آٸی اور سب سے اہم بات یہ کہ مترجم نے اس فضا بندی کا خصوصی اہتمام کیا جو بیان کردہ لوکیل کے لیے ضروری تھی یعنی جب ہم افریقی لوکیل میں ہیں تو افریقہ محسوس ہوتا ہے ایسے ہی قاری جب سیاہ فام غلاموں کو براستہ سمندر امریکہ لانے کا منظر پڑھ رہا ہوتا تو خود کو بھی وسیع و عریض سمندر کے اندر محسوس کرتا ہے۔ ایسا ہی کچھ امریکی ماحول کا بیان پڑھتے احساس ہوتا ہے کہ جیسے یہ پہلی دو دنیاٶں سے کوٸی الگ دنیا ہے۔میرے نزدیک کسی بھی ناول کو پڑھتے ہوۓ دلچسپی کا عنصر بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ کسی ناول کے دلچسپ ہونے کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ اس ناول کے دلچسپ ہونے کے پیچھے متعدد وجوہات کچھ یوں ہیں کہ میں آج تک یہی سمجھتا رہا کہ افریقی طرز حیات بس چند رسوم ورواج اور دن رات کے گزارنے کی حد تک محدود ہے لیکن یہ ناول بتاتا ہے کہ چھوٹے بچوں کی کہانیوں کے ذریعےتاریخی تربیت، بڑے بچوں کی گلہ بانی اور پڑھاٸی کےذریعے تربیت، نوجوانوں کی عسکری تربیت، نوجوانوں کی عاٸلی اور خودمختار زندگی کے لیے اقدامات، پھر درمیانی عمر کے افراد کی قانون سازی کے حوالے تربیت اور ان قوانین کے نفوذ کے حوالےسے اقدامات کے بارے پڑھتے ہوۓ ہمیں ایک افریقی معاشرے کے بارےگہری بصیرت ملتی ہے۔ ناول نگار نے یہ سب کچھ بتانے کے لیے ناول کے سب سے مضبوط کردار کنتا کنتے کے کردار کو استعمال کیا ہے جس کی پیداٸش 1750 کے سن میں ہوتی ہے ۔ ناول نگار نے اسی بچے کی تربیت اور اس کے زندگی کے مقاصد کے ذریعے افریقہ خصوصا گیمبیا کی طرز بودوباش کو دلچسپ انداز میں کھول کر رکھ دیا ہے۔ ناول کے پہلے ایک سو چونتیس صفحات افریقی زندگی کی دلچسپیوں کو اپنے اندر سموۓ ہوۓ ہے۔ ناول میں ایک بڑا شفٹ اس وقت آتا ہے جب مرکزی کردار کنتا کنتے کو غلام بنا کر ایک طویل بحری سفر پر افریقہ سے امریکہ کے لیے روانہ کیا جاتا ہے۔ ناول کا یہ حصہ اس ناول کا تکلیف دہ ترین حصہ ہے جس میں سیاہ فام انسانوں کی ایک بڑی تعداد یہ ماننے سے انکاری ہے کہ وہ کسی کے غلام ہیں جبکہ سفید فام حق ملکیت ثابت کرنے اور غلامانہ ذہنیت کو پیدا کرنے کے لیے ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے سے بھی گریزاں نہیں ہیں۔ طویل بحری سفر کے دوران بھوکے پیاسے اور بیمار سیاہ فاموں کی زندگی سفید فاموں کی نظروں میں اس قدر ارزاں ہے کہ پڑھتے ہوۓ بحیثیت ایک انسان ہر وقت شرمندگی طاری رہتی ہے۔ بحری سفر کے بعد امریکہ پہنچ کر کنتا کنتے کے کردار اور اس کے ساتھیوں کے سبب ہم جانتے ہیں کہ امریکہ میں غلامی کا نظام کس طرح چلتا تھا۔ کنتا کنتے چار بار بھاگنے کی ناکام کوشش کرتا ہے لیکن ہر بار ناکام ہوتا ہے یہاں تک کہ سزا کے طور پر اسے اپنا پاٶں بھی کٹوانا پڑتا ہے۔ پاٶں کٹنےکے بعد ایک بوڑھے سیاہ فام کی نصیحت پر عمل کرتے ہوۓ کنتا کنتے ایک غلام سیاہ فام بیل نامی خاتون سے شادی کرکے اپنی نسل کو آگے بڑھانے کا ارادہ کرتا ہے۔ نسل آگے بڑھانے کا مقصداپنے افریقی خون اور روایات کو تسلسل دینا ہے۔ کیونکہ کنتا کنتے سمجھتا ہے کہ استقامت سے اپنے سیاہ فام وجود کو برقرار رکھنا اور افریقی خون کو دوام دینا ہی اس وقت کا سب بڑا تقاضا تھا۔ خاص طور پر کنتا کنتے واضح طور پر یہ محسوس کرتا ہے کہ امریکہ میں مقیم سیاہ فاموں کی اکثریت اپنی افریقی جڑوں اور روایات سے بے بہرہ ہوتی جارہی ہے کیونکہ انھیں ایک تو زبردستی طور پر ان کی زبان اور روایات سے دستبردار کروایا جا رہا تھا دوسرا یہ کے مصیبتوں کے مارے افریقی بھی دن رات محنت کی چکی میں پس کر اپنی سدھ بدھ گنواۓ بس پیٹ بھرنے تک محدود ہو چل تھے ۔ ایسے میں کنتا کنتے اپنی بیٹی کزی کو ناصرف یہ کہ اپنی افریقی زندگی کے احوال اور افریقی روایات ازبر کرواتا ہے بلکہ اپنی افریقی زبان کے الفاظ بھی سکھاتا ہے۔ ناول میں جہاں کنتا کنتے اور اس کی اولاد کی کہانی چلتی وہیں امریکہ میں سیاہ فاموں کی غلامی اور غلامی کے خلاف مزاحمت کی تحریکوں کو کنتا خاندان اور ان کے ہمساٸیوں کے درمیان ہونے والی بحثوں اور غلاموں کے حلقوں میں گردش کرنے والی خبروں اور افواہوں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ ناول میں ناصرف غلاموں کے ڈر کو بیان کیا گیا ہے بلکہ امریکی سفید فام آقاٶں کے ڈر کو بھی بیان کیا گیا ہے جنھیں ہر وقت یہی خوف لاحق رہتا ہے کہ کب کوٸی نیگرو ان کی گردن کاٹ کر چلتا بنے۔ گویا ایک ہی وقت میں دو طرفہ خوف غلاموں اور آقاٶں کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھتا ہے۔ کنتا اور اس کا خاندان کیونکہ امریکہ کے جنوب میں واقع ورجینیا میں سکونت پزیر ہے جہاں غلامی قانون کے زیر سایہ پنپ رہی ہے وہیں جنوبی ریاستوں کے سیاہ فام غلاموں میں ایک امید یہ بھی موجود ہے کہ اگر وہ کسی طرح بھاگ کر شمالی امریکہ کی طرف چلے جاٸیں تو انھیں وہاں کے قانون کے تحت آزادی مل جاۓ گی۔ اسی طرح جنوبی ریاستوں کے سفید فام شمالی ریاستوں کی طرف سے دی گٸی غلاموں کی آزادی پر نالاں ہیں بلکہ ہر ایسے قانون کی حوصلہ شکنی بھی کرتے ہیں جس سے ان کے غلاموں پر ملکیتی حقوق کو زک پہنچنے کا امکان ہو۔ آخر کار 1860کا سال آجاتا ہے جب امریکہ کی جنوب اور شمال کی ریاستوں کے مابین سیاہ فاموں کی غلامی کے مدعے کو لے کر خانہ جنگی کا آغاز ہوتا ہے جس کا انجام آخر کار 1865 میں شمالی ریاستوں کی ابراہم لنکن کی قیادت میں جنوبی ریاستوں پر فتح کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ نتیجتاً تمام جنوبی ریاستوں کے غلاموں کو آزادی دے دی جاتی ہے۔ لیکن 1865کے آتے آتے کنتا خاندان کی چار نسلوں کو اپنے صبر اور اسقامت کے ذریعے غلامی کے ادارے کو خون پلانا پڑتاہے۔اور کنتا کنتے کے بعد کنتاکے خاندان کی اگلی چھ نسلوں تک خاندان کی تاریخ کو کنتا سے اگلی نسلوں کو بیان کیا جاتا ہے یہاں تک کہ ابراہم لنکن کے دور میں سب غلاموں کو آزاد کر دیا جاتا ہے اور کنتا کا خاندان سماج میں عزت و رتبہ حاصل کرتا ہے۔ ناول اپنے اختتام پر آکر کنتا کنتے خاندان کے ایک ایسے نماٸندے تک پہنچتا ہے جو کہ ایک مصنف اور کھوج کار ہے۔ یہ مصنف اپنی خاندانی کہانی سے حد درجہ متاثر ہو کر اپنی جڑوں کو ڈھونڈتے دھونڈتے آخرکار گیمبیا کے گاٶں جفورے جا پہنچتا ہے جو اس کے جدا امجد کنتا کنتے کا آباٸی گاٶں تھا۔ اپنی مٹی سے ملن اس کھوج کار کو ناقابل فراموش خوشی سے ہمکنار کرتا ہے۔ ناول اساس Roots پانچ سو چھہتر صفحات پر مشتمل ایک بہترین ناول ہے جو ناصرف مصنف کی محنت اور لگن کے حوالے سے قابل ستاٸش ہے بلکہ مترجم کی استقامت اور صبر بھی قابل دادہے۔ اس کتاب کو بک ہوم نے 2014 میں شاٸع کیا لیکن اب یہ ناول آٶٹ آف پرنٹ ہے۔ میں اس ناول کو خریدنے کے لیے متعدد بار بک ہوم گیا لیکن ہر بار مایوس ہی لوٹنا پڑا۔ آخرکار نصیر احمد صاحب سےاس ناول کا ذکر یہ سوچ کر کیا کہ شاید ان کے پاس ہو کیونکہ نصیراحمد کے پاس کتابوں کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے جس پر میری لوٹ مار جاری رہتی ہے۔ یہ ناول بھی نصیر احمد کے پاس موجود تھا۔ اب مسٸلہ یہ آ پڑا ہے کہ ناول واپس کرنے کو جی نہیں چاہ رہا کہ یہ ناول میری لاٸبریری کا حصہ ہونا بہت ضروری ہے۔ آخر میں بک ہوم سے گزارش ہے کہ اس کتاب کو دوبارہ شاٸع کرے یا اس کی اشاعت کے حقوق کسی اور کو تفویض کرے تاکہ علم کا تسلسل جاری رہے۔