Author
ناول” جنگل “عام امریکی شہری کی تلخ تاریخ
اپٹون سنکلیئر کا ناول” جنگل” 1906میں لکھا گیا.انگلش سے اردو میں ترجمہ عمران الحق چوہان صاحب نے کیا ہے۔ عمران الحق چوہان صاحب کا یہ اختصاص رہا ہے کہ ہمیشہ اُس ناول کا ترجمہ کرتے ہیں جس کا کینوس وسیع ہو، جو ایک خاص وقت میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں کی معاشی،سماجی اور نفسیاتی پرتیں کچھ اس انداز سے کھولے کہ ہمارے سامنے ایک پورا عہد اپنی تمام تر پیچیدگیوں اور رازوں کے باوجود عیاں ہو جائے؛ اس ضمن میں اُن کے تراجم “اساس” اور “باقی ہے شب فتنہ” دیکھے جاسکتے ہیں۔
ذکا الرحمان کہا کرتے تھے کہ فکشن عام آدمی کے بارے لکھی گئی تحریری تاریخ ہوتی ہے جس کا کردار تو بظاہر ایک فرد ہوتا ہے لیکن وہ عکاسی پورے عہد کی کرتا ہے۔ تو ایسا ہی کچھ اِس ناول میں ہوا ہے کہ یہ ناول بیسویں صدی کی پہلی دہائی کے امریکی شہر شکاگو کو ہمارے سامنے کھولتا ہے؛ جہاں اُس وقت کے امریکہ کی سب سے بڑی محنت کی منڈی لگی ہوئی تھی۔ یہ ناول اُن مزدوروں کی بپتا ہمارے سامنے رکھتا ہے جنھوں نے روزی روٹی کے لیے اپنے جسموں سے لے روحوں تک ایسے زخم سہے کہ ناول پڑھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ناول بنیادی طور پر لیفٹ کے نظریہ کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے لیکن لکھاری نے نظریے کو زندگی کے ساتھ کچھ اَس طرح جوڑا ہے کہ سب کچھ قاری کے لیے زود ہضم ہو گیا ہے۔ ناول کا آغاز لتھوینیا سے آئے ایک بارہ رکنی خاندان سے ہوتا ہے جو سن 1900میں امریکہ وارد ہوتا ہے اور پُراُمید انداز سے زندگی کے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ یہ خاندان امریکہ میں موجود معاشی مواقع کے بارے سُن کر وہاں آیاہے لیکن جب وہ شکاگو کے کارخانوں کی حالت زار اور شہر میں مہنگائی کو دیکھتا ہے تو کسی حد تک مایوس ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر بھی سب ہی پُرامید ہو کر شکاگو کی زندگی میں جُت جاتے ہیں۔ خاندان اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے ایک مکان قسطوں پر خریدتا ہے لیکن خریدنے کے بعد علم ہوتاہے کہ ایڈوانس کی ادائیگی کے بعد باقی ماندہ رقم پر ہر ماہ سود بھی اداکرنا ہے جو کہ تقریباًاُس کرائے کی رقم کے برابر ہی ہو جاتا ہے جسے بچانے کے لیے یہ خاندان مکان خریدتا ہے۔ بس اِسی مقام سے اُس خاندان کی بربادی کی داستان شروع ہو جاتی ہے۔ ناول کے مرکزی کردار یورگس کو اپنی محنت اور طاقت پر پورا بھروسہ ہے اُس کے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ وہ مزید محنت کرئے گا۔ اُس کے مزید محنت کرنے کا دعوی ناول کے پہلے چوتھائی حصے میں بار بار آیا ہے۔یوں گمان ہوتا ہے جیسے” اینمل فارم” کے باکسر کا مزید محنت کرنے کا نعرہ یہیں سے اُٹھایا گیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے یورگس سرمایہ داری نظام کی فیوض و برکات سمیٹنے کے لئے یہ نعرہ لگاتا ہے جبکہ باکسر یہی نعرہ سوشلسٹ نظام کے اندر رہ کر برابری کا خواب دیکھتے ہوئے لگاتا ہے۔ دونوں ہی کو آخرکار کرنی محنت ہے اور اپنے سے اوپر والوں کو پالنا ہے۔ گو کہ سوشلسٹ نظریہ طبقاتی نظام کو رد کرتا ہے لیکن ہم ماضی میں جب اِس کی عملی شکل چند ممالک میں دیکھتے ہیں تو سوشلسٹ نظریہ بھی سرمایہ داری کا ہی پرتو نظر آتا ہے۔ ناول” جنگل” کیونکہ روسی انقلاب سے پہلے کا ناول ہے اس لیے اُس وقت کے قارئین میں یہ ناول بہت مقبول ہوا کیونکہ محنت کش طبقے کو اِس میں اپنے لیے نجات کا راستہ نظر آتا تھا۔ یورگس کے خاندان کو شکاگومیں زندگی گزارنے کے لیے خاندان کے ہر فرد کو محنت کی منڈی میں جھونکنا پڑتا ہے۔ خاندان کے دو بوڑھوں اور بچوں کومحنت کی منڈی میں جھونکنے کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ پہلے دو سالوں میں اِس خاندا ن کے دو بوڑھے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے جب کہ ایک بچہ کارخانے میں کام کرتے مارا جاتا ہے جبکہ باقی بچے سکول میں پڑھنے کی بجائے سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یورگس مزید محنت کے ساتھ مزید فاقے کرتا رہتا ہے جس کہ سبب جسمانی حالت بھی مزید محنت کے قابل نہیں رہتی۔آخر کار خراب صحت اور چوٹ کے سبب یورگس بے روزگار ہو جاتا ہے۔ اِس بے روزگاری کے عرصے کے دوران یوگس کے خاندان کو مزید جن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اِس کا آج کے امریکہ کو دیکھتے ہوئے تصور کرنا بھی محال ہے۔ مصنف نے ناول میں بہت تفصیل کے ساتھ گوشت، پیکنگ اور کھاد کی انڈسٹری میں کام کی جگہوں کی حالت کو بیان کیا ہے۔ ناول بتاتا ہے کہ کام کی جگہوں کی حالت زار شکاگو میں ایسی تھی کہ کوئی بھی مزدور زیادہ سے زیادہ دس سال تک اُن کارخانوں میں کام کر سکتا تھا۔ کارخانوں کی خراب حالت کے سبب کسی کو ٹی بی کی بیماری ہو جاتی تھی،کسی کو سانس کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے،کسی کے جسم کے زخم دھیرے دھیرے جسم کو کھانے لگتے تھے اور رہی سہی کسر شکاگو کی شدید ٹھنڈ نکال دیتی تھی۔ تین سال کے اندر اندر ہی یورگس کا خاندان تباہ حال ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اُس کی بیوی کام کی خاطر فیکٹری انچارج سے جسمانی استحصال کروانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یورگس بیوی سے ہونے والی جنسی زیادتی کا بدلہ لینے کے سبب جیل چلا جاتا ہے۔ جیل میں ایک ماہ کی قید سے رہے سہے خاندانی وقار کا مزید دھجیاں بکھر جاتی ہیں۔یورگس کی بیوی اونا دوسرے بچے کی پیدائش کے دوران مر جا تی ہے۔ اب یورگس اپنے اکلوتے بیٹے کی پرورش کے خواب سجائے کھاد کے کارخانے میں محنت کرتا ہے لیکن ایک دن اُس کا ننھا بیٹا بھی گلی میں کھڑے بارش کے پانی میں ڈوب کر مر جاتا ہے۔ اِس مقام پر پہنچ کر یورگس خاندان کو چھوڑ کر امریکہ کی آوارہ گردی پر نکل جاتا ہے۔ایک سال آوارہ گردی کے بعد پھر سے مزدوری شروع کرتاہے لیکن اب اُس کا جسم سخت مشقت کے قابل نہیں رہتا۔ رات کو سڑکوں پر سوتاہے دن کے وقت بھیک مانگتا ہے جسم کو گرم رکھنے کے لیے شراب خانوں کا رخ کرتا ہے ایسی زندگی گزارتے گزارتے وہ کچھ سیاستدانوں کے نزدیک ہوتاہے جو ناصرف یہ کہ اُس کی مددسے ووٹ لیتے ہیں بلکہ ووٹ خریدنے سے بھی نہیں چوکتے، وہی یورگس جو سرمایہ داروں کے ہاتھوں اپنی زندگی خراب کرواتا ہے اُن کی ڈیمانڈ پر کارخانوں میں ہونے والی ہڑتالوں کوبھی ختم کرواتا ہے۔ یورگس جو کہ خود سرمایہ داری کا ڈسا ہوتاہے سرمایہ داری نظام کے کَل پُرز ے کے طور پر کام کرنا شروع کردیتا ہے۔ لیکن پھر سیاسی حالات کے پلٹنے پر ایک بار پھر سڑکوں کی خاک چھاننے پر مجبور ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک دن بھیک مانگتے مانگتے آوارہ گردی کرتے ہوئے وہ ٹھنڈ سے بچنے کے لیے ایک بڑے ہال میں سوشلسٹوں کے سیمنار میں شرکت کرتاہے۔ جہاں وہ سوشلسٹ رہنما کی تقریر سے اِس قدر متاثر ہوتاہے کہ خود بھی سوشلسٹ بن جا تاہے اور سوشلسٹ سماج کی راہ ہموار کرنے کے لیے جدوجہد شروع کر دیتا ہے۔ یورگس
خود کو سوشلسٹ تحریک سے وابسطہ کر کے اچھا محسوس کرتا ہے اور انتخابات میں سوشلسٹوں کے پہلے زیادہ ووٹ لینے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ناول اپنے اختتام پر سوشلسٹ رہنماؤں کی لمبی لمبی تقریروں اور مباحث کو قاری کے سامنے پیش کرتا ہے جس کے سبب سوشلسٹ امریکی عوام کی کایا کلپ کرنا چاہتے تھے۔ یہ ناول اُس وقت کے امریکی نظام زندگی پر کڑی تنقید کرتا ہے۔علاوہ ازیں یہ ناول ہمیں امریکیوں کی سخت دِلی اور حد سے زیادہ سرمایہ داری کی پرستش کی وجہ اُن کے تکلیف دہ ماضی میں تلاش کرنے کے لیے بھی اُکساتا ہے۔ یہ ناول سن 2022 میں بُک ہوم نے شائع کیا ہے ناول کی قیمت 1500روپے ہیں جو کہ بُک ہوم میں پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ پر بھی دستیاب ہے