Author
خیبر پختون خواہ میں ایک بار پھر ماتم کا سما ہے۔ وادی تیراہ میں بمباری سے 20 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں جن میں اکثر بچے اور خواتین ہیں۔ ملٹری قیادت کہہ رہی ہے کہ یہ حملہ تحریک طالبان نے کیا ہے جبکہ مقامی قائدین، جو اس وقت ہزاروں افراد کے ساتھ دھرنے پر بیٹھے ہیں ملٹری حکام کو اس واقع کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
حکمرانوں کی طرف اس نفرت کی بنیادی وجہ ایک لمبی تاریخ ہے جس میں قبائلی علاقوں کو ریاست نے جنگ کے لئے ایندھن کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان مسلسل جنگوں میں چند لوگوں کے پاپا جونز ضرور بنے ہیں لیکن کئی نسلیں بد امنی، دہشت گردی اور انتہاپسندی کی زد میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ آج کل یہ خوف مزید بڑھ گیا یے کیونکہ ایک طرف ٹرمپ پاکستان کو معدنیات کی لالچ دے رہا ہے جبکہ دوسری جانب افغانستان کو باگرام ائیر بیس اپنے حوالے کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ یہ دونوں مطالبات چین کے خلاف سرد جنگ کا حصہ ہیں جن کے ذریعے پشتون بیلٹ کو ایک بار پھر میدان جنگ بنایا جائے گا۔
لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر طالبان اتنے خطرناک تھے تو انہیں حریت پسند بنا کر واپس کیوں لایا گیا؟ اتنے آپریشن کے بعد لاکھوں زندگیاں تباہ ہوگئیں لیکن علاقے میں امن کیوں نہیں آیا؟ معدنیات ہوں یا سکیورٹی خدشات، مقامی لوگوں کی رائے کو ہمیشہ کیوں نظر انداز کیا جاتا رہا؟ میڈیا، پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی کو ان معاملات پر بحث کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟
ملک کے ساتھ ساتھ خطے اور پوری دنیا کے حالات ایک خطرناک مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں ایک سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے۔ 9/11 کے بعد ہم 20 سال تک جنگ میں پھنسے رہے لیکن ریاست عوام کو یہ نہیں بتا سکی کہ ہم کس کی طرف سے لڑرہے ہیں اور جب وہ لوگ کابل میں اقتدار میں آئے جن کے خلاف لڑائی کے ہمیں اربوں ڈالر مل رہے تھے تو ہم نے انہیں حریت پسند بنا کر پیش کیا۔ اب اس طرح نہیں چلے گا۔ ایک ادارے کے پاس ہر علم کی اجارہ داری نہیں ہوسکتی۔ مقامی لوگوں سے بات کریں اور ان کا اعتماد بحال کریں۔ دہشت گردوں کے حوالوں سے پالیسی واضح کریں اور پارلیمنٹ، میڈیا، سماجی تحریکوں اور سول سوسائٹی کے سامنے رکھیں۔ دونوں ہمسائے ملک امریکی کی سازش سے دور رہیں اور خطے کو ایک خونی جنگ سے بچائیں۔ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی سالمیت اور سرحدی حدود کو تسلیم کریں اور لڑائی جھگڑے کے بجائے معاشی اور دفاعی تعاون کی طرف بڑھیں۔
سب سے بڑی ذمہ داری عوام پر عائد ہوتی یے۔ میں بہت عرصے سے لکھ رہا ہوں کہ امریکہ خطے کو ایک بڑی جنگ کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے۔ اس میں وہ بھائی لوگ ان کا ساتھ دیں گے جن کے ڈالر اس دھندے سے جڑے ہیں۔ عوام کے حصے میں بربادی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ ایک ملک گیر جنگ مخالف محاذ بنانا ہمارے ملک اور خطے کے تحفظ کے لئے ناگزیر ہے۔ ہماری توانائی اسی محاذ کی تعمیر کے لئے صرف ہونی چاہئے