Author
کامریڈ عرفان علی
جس ملک میں اڑھائی کروڑ بچہ اسکول نھیں جا رہا وہاں مزید اسکول بنانے کی بجائے مزید دس ہزار سکول بند ہونےجارہے ہیں ۔حکومتی بریفنگ کہ اربوں روپے کی بچت ہوگی۔
حکومت کی یہ بچت پالیسی کیا خوب ہے جو حقیقتاً حکمران طبقے کے لیے کتنی فایدہ مند ہے اس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔اس پالیسی سے ایک طرف اربوں روپوں کی بچت ہو گی تو دوسری طرف عوام کو جاہل رکھنے میں مدد ملے گی۔کیونکہ جاہل عوام حکمرانوں کے لیے ،ان کی بادشاہت کے لیے کوئی خطرہ نھیں ہوتے ،سوال نھیں اٹھاتے،حق نھیں جتاتے،وہ زندگی بھر اپنے انپڑھ رہ جانے کو ہی اپنی بربادی کا ذمہ دار سمجھتے رہتے ہیں،اپنے آپ کو ہی کوستے رہتے ہیں۔ان میں سے بہت سے پردیس جا کر ملک میں زرمبادلہ بھیجتے ہیں،بہت سے یہاں سرمایہ داروں،جاگیرداروں،وڈیروں کی چاکری و تعظیم کرتے،ہیں بہت سے دس بیس تیس روپوں کی خاطر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے بعد سی سی ڈی کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں جس سے عدل و انصاف کا پرچم اور عادل حکمران کی جبروت کا غلغلہ بلند ہوتا ہے۔باقی بیروزگاری اور غربت کو قسمت کا لکھا سمجھ کر لنگر خانوں کی لائنوں میں لگے حکمرانوں کے ضمیر کی طرح قسطوں میں مرتے رہتے ہیں اور اس صف میں نئے بھکاری جنم لے کر شامل ہوتے رہتے ہیں۔سماج جرائم کی ایک دلدل بن جاتاہے جس سے کوئی انفرادی طور پہ جتنی مرضی کوشش کر لے نھیں نکل پاتا بلکہ مزید دھنستا چلا جاتا ہے۔جہاں سرمایہ داروں کی دولت میں دن رات اضافہ اور غریبوں کی غربت مزید بڑھتی رہتی ہے اور وہ اپنے آپ کو سستا بیچنے پہ مجبور رہتے ہیں۔
ویسے بھی پڑھ کر کیا کرنا ہے اگر لوگ پڑھیں گے تو بہتر نوکری کا تقاضا کریں گے ورنہ ڈگریاں جلایئں گے جس سے حکمران اشرافیہ بدنام ہو گی۔اور کہیں نہ کہیں کوئی شعور کی کھڑکی بھی کھل سکتی ہے جو راجاؤں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے،طلباکسی بھی وقت سیاست کے میدان میں کود سکتے ہیں جس سے حکمرانی خطرے میں پڑ سکتی ہے لہذا سب سے اچھا فیصلہ ہے کہ اسکول بند کردئیے جائیں ۔ہر ایرا غیرا کیوں علم حاصل کرے۔علم حاصل کرنا بھی صاحب استطاعت ،صاحب ثروت اور صاحب اقتدار کا نصیب اور حق رہنا چاہیے ۔ان میں سے بیچاری مڈل کلاس کے جوبچے لاکھوں روپے فیسیں دے کر پڑھیں گے ان کے پاس سیاست جیسی عیاشی افورڈ کرنے کے مواقع ہی نھیں ہوں گے لہذا نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔ہاں ان کے بچے سیاست کریں کے جو آکسفورڈ جیسی یونیورسٹیوں سے اپنے بچوں کو پڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے اور وہ سیاست ہو گی بورژوا سیاست، پونجی داروں کے مفادات کے تحفظ کی سیاست ۔
اس لیے اس گولڈن پالیسی پہ واقعی اترانا بنتا ہے اور اس بچت کو بھی سیلیبریٹ کرنا بنتا ہے۔
ہاں ایک بات بھول گیا کہ جو اساتذہ ہیں یہ کس کام کے ہیں ان کے ناز نخرے کیوں اٹھائے جائیں یہ ہڈ حرام کمیونٹی جو پولیو ڈیوٹیاں ،مردم شماری ،ڈیوٹیاں،الیکشن ڈیوٹیاں دینے کے ساتھ ساتھ بچوں کو پڑھانے کی تنخواہ بھی لیتے ہیں۔یہ ملکی خزانے پہ بوجھ ہیں ٹھیک ہے ایک اسمبلی معبر ایک استاد کی تنخواہ سے دس بیس گنا زیادہ تنخوا لیے رہا ہے دیگر سہولیات الگ مگر وہ بہرحال اسمبلی میں بیٹھنے کا کشٹ اٹھاتا ہے وہ حکمران طبقے کا حصہ ہے،وہ گھر کا جی ہے ۔وہ خرچہ تو ناجائز نھیں۔مگر یہ اساتذہ کیوں گورمنٹ کے سر کا بوجھ رہیں ۔
اسی بچت یعنی یہ تعلیمی بجٹ سے جو رقم بچے گی سی سی ڈی جیسے ادارے مزید بناے جا سکتے ہیں جو اساتذہ سے کئ گنا زیادہ اچھا رزلٹ دے سکتے ہیں بلکہ دے رہے ہیں۔اسی طرح لوگوں کو مارتے جاؤ ،ملک پہ جو بوجھ ہے،قرضوں کا ،مہنگائی،بیروزگاری و غربت کا اس میں بھی اضافہ نھیں ہوگا ،اور لوگ ڈر کر سہمے رہیں گےچپ رہیں گے۔بولیں گے نھہں،سوچیں گے نہیں اور حکمرانوں کی موجیں لگی رہیں گی۔یہ اچھی پالیسی ہے۔
کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی