Author
ٹرمپ نے زیلینسکی کے ساتھ وہی حشر کیا جو امریکہ اپنی ہر کٹھ پتلی کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی استعمال کرکے اسے ٹیشو پیپر کی طرح پھینک دیا۔ یوکرائن کو 3 سال کی جنگ لڑوانے کے بعد اس کے حریف سے صلح کرلی اور یہ تک کہہ دیا کہ یوکرائن ہمارے پیسے واپس کرے۔ اب لبرلز یا لیفٹ نما لبرلز کے رونے دھونے کو اگنور کردینا چاہئے کیونکہ جس جعلی مغرب نواز دنیا پر انہیں بھروسہ تھا، وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کس قسم کا آرڈر آگے بننے جارہا یے اور ترقی پسند قوتیں کیا حکمت عملی ترتیب دے سکتی ہیں؟ اس پر میں آٹھ بنیادی پوائنٹ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
1) امریکہ اور یورپ کے درمیان سکیورٹی اتحاد 1945 میں ہوا اور اس کی بنیاد “روسی خطرہ” تھا جو در حقیقت سوشلسٹ تحریک کا خوف تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھی اس اتحاد نے مشرقی یورپ پر اپنا غلبہ بڑھانے کے لئے مسلسل کوشش کی جس کی ایک علامت نیٹو مین مشرقی یورپ کے کئی ممالک کو شامل کرنا تھا تاکہ روس کے اردگرد گھیرا مزید تنگ کیا جاسکے۔ یہ اتحاد اب آخری سانسیں لے رہا ہے کیونکہ امریکہ نے روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کو ترجیح دی یے اور یورپی بیانیے کو مسترد کردیا یے۔ یعنی 80 سال بعد پہلی بار یورپ کو اپنی سلامتی کی ذمہ داری خود اٹھانی پڑے گی۔
2۔ 2008 کے معاشی بحران اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی یورپ میں شدید غصے کی لہر دوڑ رہی ہے۔ یورپ کے دفاع کا بوجھ اب یورپی حکمران طبقات عوام پر مزید ٹیکس لگا کر اور بینکوں سے مزید قرضے لے کر اٹھائیں گے جس سے یورپ کے معاشروں میں اندرونی تضادات اور سیاسی عدم استحکام بڑھے گا۔ بینکوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ان کے خلاف نفرت کی وجہ سے بہت عرصے بعد یورپ مین طبقاتی جدوجہد میں بھی شدت آئے گی۔
3۔ یورپ میں اب امریکہ نواز لبرل قوتوں کا زوال مزید تیز ہوجائے گا کیونکہ ان سے ان کا قبلہ چھن گیا یے۔ ان کے برعکس یورپی ممالک میں نیشنلزم کا رجحان بڑھے گا۔ اس نیشنلزم کی اس وقت قیادت نسل پرست قوتیں کررہی ہیں جن کا بنیادی ہدف تارکین وطن ہیں اور جن کو ٹرمپ انتظامیہ، خصوصی طور پر ایلون مسک کی حمایت حاصل ہوگی۔
4۔ بہت عرصے بعد یورپ میں ایک نیشلنسٹ لیفٹ بھی سامنے آرہا ہے جو کہ بہت خوش آئیند بات یے۔ 1930 سے 1950 تک حب الوطنی پر بائیں بازوں کی تنظیموں کی اجارہ ہوتی تھی کیونکہ وہ امریکہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خلاف اپنے عوام کی نمائندگی کرکے محب وطن ہونے کا دعوت کرتے تھے۔ لیکن پچھلی کئی دہائیوں سے لیفٹ میں ایک مخصوص قسم کے دانشوروں کا غلبہ ہوگیا جنہوں نے یورپی یونین جیسے سامراجی اداروں کی حمایت سے لے کر شناخت کی سیاست تک خود کو محدود کردیا۔ دو دن پہلے فرانس کے لیفٹ کے بڑے لیڈر Jean luc Melenchon نے اعلان کیا ہے کہ فرانس یورپ کو امریکی کالونی نہیں بننے دے گا۔ یہ 1950 کی دہائی کے بعد پہلی بار امریکہ کے خلاف یورپی لیفٹ کے اہم نمائندے نے اس طرح کا بیان دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ رجعتی نیشنلزم کا مقابلہ ترقی پسند نیشنلزم سے ہوگا۔
5۔ امریکہ کا اصل ہدف نہ روس ہے، نہ یورپ اور نہ ہی مشرق وسطی۔ اصل ہدف چین یے جس کے خلاف صف بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ روس کے ساتھ سمجھوتا کرکے عسکری وسائل ایشیا کی طرف منتقل کئے جائیں تاکہ چین کو روکا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ روس کو بھی چین کے خلاف اتحاد میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی لیکن اس میں دو پیچیدگیاں ہیں۔ روس کے لئے امریکہ پر اعتبار کرنا بلکل بھی آسان نہیں اور دوسرا روسی معیشیت کو چین ہی کا سہارہ ہے جس کو چھوڑنا آسان نہیں ہوگا۔ اور یہ اب عین ممکن ہے کہ کئی یورپی ممالک امریکہ سے تلخی کے بعد آنے والے سالوں میں خود ہی چین اور روس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی طرف بڑھنا شروع ہوجائیں جس سے عالمی منظر نامہ مزید پیچیدہ ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے یورپ کو شدید معاشی نقصان ہوا ہے کیونکہ یورپی معیشت روسی گیس پر انحصار کرتی تھی۔
6۔ امریکہ اب جنگ کو ایشیا میں منتقل کرے گا اور چین کو ہندوستان، تائوان، جاپان، کوریا، تھائلینڈ اور اپنے دیگر اتحادیوں کے ذریعے گھیرے میں لے گا۔ جو پیسہ یوکرائن پر ضائع کرنا تھا، وہ اب ان ممالک پر لگے گا تاکہ چین کی ترقی کو روکا جاسکے۔ دوسری جانب ہمارے خطے میں امریکہ صرف ملکوں سے نہیں بلکہ مختلف مذہبی اور لسانی گروہوں سے الگ الگ ڈیل کرنے کی کوشش کرے گا جیسے دوہا میں طالبان کے ساتھ ڈیل کی۔ کوریا سے لے کر ویتنام اور یوگوسلاویہ سے لے کر شام میں جہاں بھی امریکہ گیا ہے، اس نے اس ملک میں اندرونی تضادات کو انتشار میں تبدیل کردیا یے۔ مثال کے طور پر شام میں امریکہ کو فکر نہیں تھی کہ وہاں پر جمہوریت ہے یا آمریت۔ کرد، عرب سنی، شعیہ اور دیگر شناختوں پر۔مبنی تضادات کو استعمال کرکے وہاں پر اپنے لئے ایک مستقل فوجی اڈہ قائم کرلیا جبکہ شام کے عوام کے حصے میں صرف تباہی آئی۔
7۔ اس حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے لئے انہیں لوکل زیلینسکی کی ضرورت ہوگی اور بدقسمتی سے ہمارے خطے میں ایسے کئی زیلینسکی موجود ہیں جو آج بھی امریکہ سے امید لگا کر بیٹھے ہیں۔ ہمارے ساتھ افغان جہاد اور war on terror کے نام پر امریکہ دو بار زیلینسکی سے بھی بدتر سلوک کرچکا ہے لیکن ڈالری جنگوں کی عادت اور کشش کم نہیں ہورہی۔ یوکرائن ہمیں سبق سکھا رہا یے کہ جو بھی امریکہ کے ایما پر جنگ لڑے گا، اس کو آزادی تو نصیب نہیں ہوگی لیکن وہ اپنے خطے اور اپنے عوام کی بربادی میں ایک بہت بڑا رول ادا کرے گا۔
8۔ پاکستان کو ایک بار پھر فرنٹ لائن سٹیٹ بنانے کی کوشش کی جائے گی اور حکمران طبققات کو خفیہ معادوں اور ڈالروں کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہمارے لئے ناگزیر ہے کہ ایک ملک گیر جنگ مخالف مہم کو منظم کریں جو ہمارے ملک کو ایک بار پھر اغیار کی جنگ میں ایندھن بننے سے روکے۔ اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اندرونی تضادات کو احسن طریقے سے حل کیا جائے تاکہ ان تضادات کو ریاست اور سامراج اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہ کرسکیں۔ عوام کو امن، انصاف اور روزگار چاہئے۔ جنگ صرف ان کی ضرورت ہے جن کے حصے میں لاشوں کے بدلے ڈالر آتے ہیں۔
غزہ اور یوکرائن کے بعد لبرل عالمی آرڈر ختم ہوگیا ہے۔ اس خلا کو کون پر کرے گا یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ تاریخ کی سمت کا تعین جدوجہد ہی کرتی ہے۔ لیکن جو لوگ وائٹ ہاوس کے شرمناک مناظر کے بعد بھی امریکہ سے آزادی کی بھیک مانگیں، ان کی جگہ پھر تاریخ کے کوڑے دان میں ہی ہوگی