NE

News Elementor

What's Hot

پاکستان کا مستقبل جنگ سے مشروط

Table of Content

Author

حکمران طبقات نے ماضی کی طرح پاکستان کا مستقبل جنگ سے مشروط کردیا ہے۔ بلوچستان میں حالات پر قابو پانے کے لئے مذاکرات اور تاریخی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے بجائے بڑھتے ہوئے سوالات کو عسکری طاقت کے ذریعے دبایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پختونخواہ کو نئی سرد جنگ کا مرکز بنایا جائے گا جس میں مختلف طاقتیں اور گروہ دخل اندازی کریں گی۔ اس طرح کی “نازک صورتحال” کے پیش نظر ملک میں جمہوری قدریں مزید کمزور ہوں گی اور سیاسی فیصلوں کا مرکز پنڈی ہی رہے گا جبکہ پی پی اور ن لیگ جیسی پارٹیاں ریت کی بوریوں کا کردار ادا کرتی رہیں گی۔

معاشی حوالے سے بھی کنٹرول ایک ادارے کا ہی ہوگا۔ میں SIFC کے حوالے سے تفصیل سے لکھ چکا ہوں جس کے زریعے گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے لے کر پنجاب کی زرخیز زمین اور سندھ کے دریاوں سے کے کر بلوچستان کی معدنیات پر قبضہ کیا جائے گے۔ کل ہی خبر آئی ہے کہ جھنگ اور خانیوال میں ہزاروں مزارعین، جو پنجاب کے زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، کو اپنی زمینوں سے جبری طور پر بے دخل کیا جارہا یے تاکہ ان کی زمینیں خلیجی سرمایہ کاروں کو دی جاسکیں۔ یہ قبضہ گیری کی ایک نئی شکل ہے جس میں ملکی وسائل اور محنت کشوں کی محنت کو راتوں رات اپنے قبضے میں لے لیا جائے گا اور بے دخل ہوئے مزارعین کے لئے کوئی متبادل انڈسٹری بھی نہیں لگائی جائے گی۔

عالمی صورتحال اس وقت ان رجحانات کو مزید تقویت دے گی۔ مثال کے طور پر دہائیوں کے محاصرے کے بعد اور نئی سرد جنگ میں مغرب کا بنیادی نشانہ بننے کی وجہ سے چین اپنے ہمسائے ملکوں میں اتحادی تلاش کرنے کی جستجو کو مزید تیز کرے گا۔ دوسری جانب ہندوستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس خطے میں امریکہ کے لئے چین کے خلاف ہر اول دستے کا کردار ادا کرے گا جس کی وجہ سے چین سمیت پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے اس کے تعلقات مزید کشیدہ ہوں گے۔ ایران نے غزہ کی جنگ میں میں مزاحمت کاروں کی حمایت کرکے اسرائیل اور امریکہ سمیت عربی ممالک کی مخالفت بھی مول لے لی ہے جس کی وجہ سے اس پر شدید فوجی دباؤ قائم رہے گا۔ اور افغانستان کے اندر طالبان حکومت اور اس کے پاکستان کے اندر دہشت کرد گروہوں سے روابط حالت جنگ کو مزید تقویت دیں گے۔ اسی طرح امریکہ اور یورپ کی یوکرائن کے معاملے پر بڑھتی ہوئی خلیج نے یورپ کو بھی موقع دے دیا یے کہ وہ اپنے دفاعی بجٹ کو بڑھائے جس سے عسکری انڈسٹری مظبوط ہوگی۔ امریکہ پہلے ہی یوکرائن کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک چکا ہے تاکہ وہ بھی اپنا مال اور اسلحہ یورپ پر لگانے کے بجائے ایشیا پر خرچ کرے جس سے ہمارے خطے میں جنگی ماحول مزید تیز ہوگا۔

جمہوری قدروں کی کمزوری کے علاوہ اس سب کا معیشیت اور ہماری زندگیوں پر کیا اثر پڑے گا؟ ہمارے خطے میں جنگوں کے زریعے ایک تو وار انڈسٹری، جس میں اسلحے سے لے کر وار logistics کا کاروبار طرقی کرے گا۔ دوسری جانب ہماری جغرافیائی حدود کو کرائے پر فروخت کیا جائے گا تاکہ جلدی ڈالر کمائے جا سکیں لیکن اس کی قیمت زندگیوں اور کاروبار کی تباہی کی صورت میں عوام کو ادا کرنے پڑے گی۔ پروفیسر علی قادری اس عمل کو accumulation by waste کہتے ہیں یعنی سامراج زندگی، ماحولیات اور انفراسٹرکچر کو تباہ کرکے اپنے مقاصد پورے کرتا ہے جبکہ حکمران طبقات کو اپنے تابع رکھنے کے لئے ان کے ملک اور عوام کی بولی لگائی جاتی ہے۔ اسی طرح جب Green Pakistan Initiative جیسے منصوبوں پر عملدرآمد شروع ہوگا تو پنجاب میں بے دخلی، گلگت بلتستان میں قبضوں، اور سندھ میں پانی کی قلت کی وجہ سے نہ صرف لاکھوں لوگ بیروزگار ہوں گے بلکہ چھوٹے شہر اور قصبے مزید پسماندگی کی طرف بڑھیں گے۔

یہاں پر میں ایک اور بحث کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان میں ان معاملات کو صرف طبقے یا قومی شناخت کے اردگرد دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ جس قسم کا معاشی ماڈل ہمارے اوپر نافذ کیا جارہا یے، اس میں سب سے زیادہ نقصان چھوٹے شہروں، اور دیہی علاقوں کا ہورہا ہے جس کے بارے میں بہت کم بات ہوتی ہے۔ زمینوں پر قبضہ، جنگ کی تباہی، زراعت کا بحران، آئی ایم۔ایف کی ایما پر مہنگائی، اور انڈسٹری کی کمی کے ملاپ نے ہمارے چھوٹے شہروں میں قیامت کا سما پیدا کردیا ہے۔ لوگ پنجاب کو ترقی یافتہ سمجھتے ہیں لیکن اگر مریدکے سے شروع ہوکر کسی بھی چھوٹے شہر میں چلے جائیں تو وہاں پر آپ کو بیروزگار نوجوان ice جیسے نشوں سے لے کر چھوٹے چھوٹے گینگ میں شمولیت اختیار کرکے اپنی زندگیاں برباد کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہی صورتحال خیبر پختونخواہ میں ہے جس کی معیشیت اب مکمل طور پر پنجاب، کراچی اور بیرونی ملک بیٹھے migrant Labour پر انحصار کرتی یے۔ سندھ کے اندر بھی بڑے پیمانے پر لوگ اپنے دیہات چھوڑ کر کراچی جارہے ہیں جبکہ کشمیر سے لے کر کراچی تک ہر نوجوان کا خواب ہے کہ وہ ملک چھوڑ جائے چاہے اسے جان کی بازی لگانی پڑے۔ یہ معاملہ مزید خطرناک ہوتا جارہا ہے کیونکہ مغرب میں نسل پرستی کا رجحان بڑھ گیا ہے جو خصوصی طور پر ہمارے جیسے ملکوں سے ہجرت کرنے والے تارکین وطن کو اپنی نفرت کا نشانہ بناتے ہیں۔

یعنی پاکستان اور دنیا بھر میں ایک نئی جغرافیائی حقیقت ابھر رہی ہے جس میں دولت چند شہروں میں جمع ہوگی اور ان بڑے شہروں کی کچی آبادیوں سے لے کر ملک بھر کی غریب بستیوں میں نہ صاف پانی ہوگا، نہ روزگار اور نہ اچھی تعلیم کے مواقع۔ Mike Davis نے اس ابھرتی ہوئی دنیا کو planet of slums یعنی کچی آبادیوں کی دنیا کہا تھا جس میں رہنے والے عوام نچلے درجے کے شہری تصور ہوں گے۔ ان کو کنٹرول کرنے کا طریقہ مراعت نہیں ہوگا بلکہ پولیس اور عسکری زاویے سے ان کو کنٹرول کیا جائے گا تاکہ وہ چند لوگوں کی منافع خوری میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ دوسرے الفاظ میں militarised capitalism معاشرے کی کئی پرتوں کو militarised control کی طرف دھکیل دے گا جس میں لوگوں کی روز مرہ کی زندگی ڈاکوؤں، گینگز، ریاستوں غنڈوں اور بھوک سے بچنے میں گزرے گی۔

ایسے میں کسی اجتماعی سوچ کی خلا بدترین قسم کی نسل پرستی، مذہبی شدت پسندی یا بے معنی قسم کی gang war پوری کرے گی۔ کہیں پر یہ لڑائی زبان پر ہوگی تو کہیں فرقے پر، کہیں کوئی علاقے کی بنا پر لڑے گا تو کہیں پر ذات کی بنا پر، لیکن یہ سب لڑائیاں نہ صرف اس ملٹری کیپیٹلزم سے لڑنے کے لئے ناکافی ہوں گی بلکہ لاشعوری طور پر عوام کو تقسیم کرکے ان کی مدد بھی کریں گی۔ ایسے جنگی حالات میں جب لوگ مسلسل اپنے گھر بار چھوڑنے ہر مجبور ہیں، ترقی پسند قوتوں کو ایک نئی عالمگیریت کی طرف بڑھنا پڑھے گا جس کا مرکز کوئی ایک شناخت نہیں بلکہ چھوٹے شہروں اور دہاتوں سے مسلسل دربدر ہونے والے انسان ہونے چاہئیں جن کے مقدر میں صرف تہذیبی بیگانگی اور ریاستی جبر لکھا یے۔ اس گروہ کو فرانسیسی فلسفی Alain Badiou نے nomadic proletariat, کا نام دیا ہے یعنی وہ محنت کش جو سرمایہ داری اور جنگ کے ملاپ کی وجہ سے مسلسل حالت ہجر میں ہیں۔ Badiou کے بقول یہ دنیا کی سب سے زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے جو افریقہ سے کے کر لاطینی امریکی اور ایشیا سے لے کر یورپ تک ہر جگہ موجود ہے۔ ان کا مقابلہ ان کمنیوں سے ہے جو جنگ اور لوٹ مار کرکے ان کی زندگیوں کو مزید مشکل بنارہی ہیں اور ان ریاستوں سے ہے جو کہ ان کمپنیوں کی سہولت کاری کرتے ہوئے ان محنت کش کو بنیادی حقوق سے محروم کررہی ہیں۔ دوسری جانب جب یہ محنت کش اپنے حقوق کے لئے لڑ رہے ہوتے ہیں تو وہ ایک نئی عالمگیریت کو جنم دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان کروڑوں زندگیوں کے تحفظ کا مقدمہ لڑرہے ہوتے ہیں جن کو اس وحشی نظام نے “ترقی” کی راہ پر ایک چھوٹی سی قیمت تصور کرکے قربان کردیا ہے۔

آنے والے سالوں میں لڑائی اسی عالمگیریت کے لئے ہوگی جو جنگی ماحول میں انسانی زندگی کا تحفظ کرسکے۔ اور اس کا مرکز اسلام آباد کراچی لاہور پشاور یا کوٹہ نہیں بلکہ وہ چھوٹے شہر اور دیہات ہوں گے جن میں رہنے والوں کو حکمران طبقات انسان تصور کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان سب دکھوں کو جوڑ کر پاکستان اور دنیا بھر میں Demilitarization, Democracy اور Development کے لئے ایک شاندار تحریک کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم ناکام ہوگئے تو ترقی پسند عالمگیریت کی جگہ خوف اور دہشت کی عالمگیریت ہوگی جس سے ہم universal horror کے عہد میں داخل ہوجائیں گے۔

Ammar Ali Jan

Pakistani Political Activist and Historian.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent News

Trending News

Editor's Picks

کہ خوشی سے مر نا جاتے گر اعتبار ہوتا۔

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. پاکستانی ریاست اس وقت ٹی ایل پی کے مظاہرین پر گولیاں برسانے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں طالبان کے خلاف آپریشن کررہی ہے۔ ایک طرف اندرونی طور پر یہ کہا جارہا یے کہ یہ شر پسندوں کے خلاف آپریشن ہے تو دوسری جانب افغان طالبان پر...

مترجم کی موت, جارج سزرٹس، لازلو کراسزنا ہورکائی کے مترجم کا شکوہ

Author Dr. Furqan Ali Khan Medical doctor, activist ,writer and translator جارج سزرٹس کا شکوہ لازلو کراسزنا ہورکائی کے نوبل انعام جیتنے پر میں نے جتنی پوسٹیں لکھی ہیں وہ تقریباً ان کے طویل جملوں میں سے ایک کے طور پر اہل ہیں۔ آج صبح میں اس کے بارے میں مضامین تلاش کر رہا ہوں...

نسل کش صہونی ریاست نے فلوٹیلا پر حملہ کرکے کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. نسل کش صہونی ریاست نے فلوٹیلا پر حملہ کرکے کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس میں پاکستان سے سینیٹر مشتاق خان بھی شامل ہیں جنہیں اسرائیلی ملٹری نے زیر حراست رکھ لیا ہے۔ میرا بہت قریبی دوست، ڈیوڈ ایلڈلر David Adler, کی بھی گرفتاری کی...

کشمیر کے تمام شہریوں، اور خصوصی طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کارکنوں و لیڈران کو مبارک جنہوں نے بہترین حکمت عملی اور ثابت قدمی کے ذریعے حکومت کو ان کے مطالبات منظور کرنے پر مجبور کیا

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. کشمیر کے تمام شہریوں، اور خصوصی طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کارکنوں و لیڈران کو مبارک جنہوں نے بہترین حکمت عملی اور ثابت قدمی کے ذریعے حکومت کو ان کے مطالبات منظور کرنے پر مجبور کیا۔ ان تمام لوگوں کو شرم آنی چاہئے جو مسلسل...

ٹرمپ کے غزہ پلان پر 9 نکات

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. 1۔ یہ معاہدہ فلسطینی قیادت اور عوام کو اعتماد میں لئے بغیر کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ سامراجی  قوتوں اور اس کے حواریوں کی طرف سے غزہ پر مسلط کیا گیا ہے۔ 2 سال کی مسلسل بربریت اور نسل کشی کے بعد حماس اور...

News Elementor

Right Info Desk – A Different Perspective

Popular Categories

Must Read

©2025 – All Right Reserved by Right Info Desk