Author
حالیہ دنوں میں عسکری قیادت کی طرف سے غیر معمولی اعتماد کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کا آسان جواب امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی geostrategic اہمیت ہے۔ جنرل صاحب کا اوورسیز کنونشن میں گرجنا برسنا دراصل اس نئی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے جس میں ایک بار پھر امریکہ جبر و آمریت کو دنیا میں پنپنے کا بھرپور موقع دے گا۔
پاکستان کا قیام سرد جنگ میں ہوا جس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سرمایہ دارانہ امریکہ اور سوشلسٹ سوویت یونین مدمقابل تھے۔ چند مغرب نواز لبرل اور لیفٹ کے ساتھی یہ جھوٹا بیانیہ بناتے ہیں کہ امریکہ جمہوریت اور سوویت یونین آمریت کا حامی تھا۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی اور خصوصی طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں آزادی کی تمام تحریکوں کو ماسکو کی حمایت حاصل تھی جبکہ امریکہ اکثر رجعتی فوجی آمریتوں کو ترجیح دیتا تھا۔ سعودی عرب سے لے کے ایران، فلپائن سے کر انڈونیشیا اور برازیل سے لے کر ویتنام میں امریکہ نے بدترین سوشلسٹ مخالف آمریتوں کی حمایت کی۔ پاکستان کی عسکری قیادت بھی اس تاریخ کا حصہ بنی جس میں اس نے امریکی مفادات کے لئے خطے میں ہر اول دستے کا کام کیا جس کی سب سے بھیانک مثال افغانستان میں مسلسل جنگ کی صورت میں ملتی یے۔
اس وفاداری کے بدلے پاکستان کو 1950 کی دہائی سے مسلسل ڈالر ملنا شروع ہوئے جس کا حکمران طبقات نے خیر مقدم کیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھا کہ تمام دانشوروں اور سماج کی بڑی پرتوں میں یہ اتفاق تھا کہ آزادی کے بعد کچھ حد تک معاشی ڈھانچہ تبدیل کرنا پڑے گا کیونکہ انگریزوں کے بنائے ڈھانچے میں صنعتی طرقی کرنا ناممکن یے۔ اس کا حوالہ مسلم لیگ کے 1946 کے منشور میں بھی ملتا ہے جس کو دانیال لطیفی نامی ایک سوشلسٹ وکیل نے لکھا تھا۔ لیکن امریکی ڈالروں کی بھرمار نے حکمران طبقات کو ایک نئی جان بخشی جنہیں اب لگا کہ کسی بھی معاشی اصلاحات یا کسی طور پر اپنی مراعات کو ہاتھ لگائے بغیر معشیت چلائی جاسکتی ہے۔ اطالوی مارکسی فلسفی گرامچی فرسودہ سماجی رشتوں کو توڑے بغیر کی گئی اس “ترقی” کو passive revolution کہتے ہیں یعنی ایک معاشی انقلاب جس میں طبقاتی نظام ختم ہونے کے بجائے مزید مستحکم ہوجائے۔
صنعتی پسماندگی نے پاکستان کے لئے امریکی ڈالروں کی اہمیت بڑھائی کیونکہ حکمران طبقہ اپنے اخراجات اپنی پیداواری صلاحیت اور ٹیکس سے پورا کرنے کے بجائے قرضوں اور بیرونی امداد کے ذریعے پورے کرتا ہے۔ اور یہ معاملات 2011 میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور سلالہ کے مقام پر نیٹو بماری نے پیچیدہ کردئے کیونکہ امریکہ کے اندر یہ سوچ پیدا ہوگئی کہ پاکستان ڈبل گیم کررہا یے جبکہ عسکری قیادت کو خوف پڑھ گیا کہ سولین پارٹیاں، بشمول پی پی اور ن لیگ، واشنگٹن کے بہت قریب ہوچکے ہیں۔ memogate scandal، عمران خان کی حمایت اور سولین حکومتوں کے خلاف مسلسل سازشیں کا پس منظر پاکستان کے امریکہ سے بدلتے ہوئے تعلقات تھے۔ جب اوبامہ کی جارحانہ چین مخالف Pivot to Asia پالیسی سامنے آئی تو چین نے امریکی محاصرے کو توڑنے کے لئے Belt and Road Initiative کا اعلان کیا۔ پاکستان کی امریکہ کے ساتھ کشیدگی کے نتیجے میں جو ڈالر امریکہ سے آنا بند ہوگئے تھے، ہمارے حکمرانوں نے انہیں ڈالروں کے لئے سی پیک کی صورت میں BRI کی حمایت کی اور قیصر بنگالی صاحب کے بقول چین نے جو صنعتی ترقی کے منصوبے دیئے تھے، اس پر کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
اس دوران امریکہ نے پاکستان سے سرد تعلقات رکھے اور آئی ایم ایف اور انسانی حقوق کے نعروں کے ذریعے حکومت پر دباؤ رکھا۔ ہمارے بھولے لبرل ایکٹیوسٹ کی ایک بڑی تعداد واقع ہی یہ سمجھ گئی تھی کہ امریکہ، جس نے مسلسل تیسری دنیا میں آمریتوں کی حمایت کی ہے، وہ اب پاکستان میں انسانی حقوق اور محکوم قوموں کو حق دلوانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ یہی غلطی پی ٹی آئی کے دوستوں نے کی جب ان کا خیال تھا کہ ٹرمپ کے ذریعے وہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کرواسکتے ہیں۔ لیکن امریکہ، جہاں پر خود جمہوریت فاشزم کے گھیرے میں ہے، اپنے حکمران طبقات کے بدلتے ہوئے مفادات کے علاوہ کسی چیز کو مقدس نہیں سمجھتا۔
اس سال حالات تیزی سے بدلے ہیں۔ امریکی حکام کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ یوکرائن کے ذریعے روس کو تباہ کرنے کا منصوبہ بھاری پڑھ رہا یے اور روس مزید مستحکم ہونے کے ساتھ چین کی طرف جارہا ہے۔ دوسری جانب مشرقی وسطی میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف بغاوت اور ایران کو روکنے کے لئے عرب اتحادیوں سے تعلقات قائم کرنا ضروری ہوگیا یے۔ اور چین کو روکنے کے لئے نہ صرف مسلم دنیا کے آمروں کے ساتھ تعلقات مزید مظبوط کرنے ہوں گے بلکہ بہت جلد ان معدنیات تک رسائی حاصل کرنی ہوگی جو آج کے پیداواری نظام کے لئے ناگزیر ہیں۔
ان دونوں پوائنٹس پر پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ Ryan Grim کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سی آئی اے اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ(جو امریکی وزارت خارجہ کا درجہ رکھتی یے) کے درمیان پاکستان کو لے کر بحث تھی کہ اگر چین کو روکنے کے لئے پاکستان سے تعلقات ایک بار پھر بہتر کرنے کے کوشش کی جاتی ہے تو وہ سولین سے کی جائے یا فوج سے۔ اس بحث میں سی آئی اے کی واضح جیت ہوئی ہے جو سمجتھی ہے کہ ملک جنریلوں کا ہے اور ان کے ذریعے ہی چلایا جاسکتا ہے۔ ایسے میں امریکی بزنس مین اور کانگریس کے اراکین کا دورہ، چیف صاحب سے ملاقات، معدنیات پر گفتگو، اور جمہوریت کے سوال پر مکمل خاموشی اس بات کا عندیہ ہے کہ واشنگٹن نے نئی سرد جنگ میں ایک بار پھر پنڈی کا انتخاب کرلیا یے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اب عوام کو مزید اس قسم کی بے معنی لیکن دھواں دھار تقریریں سننے کا موقع ملتا رہے گا۔
آخر میں ایک مزید بات Ryan Grim کی رپورٹ میں کی گئی ہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ شنجیانگ میں جہاد کے نام پر فساد کو افغانستان اور پاکستان تک لایا جائے تاکہ چین کی ترقی کو روکا جاسکے۔ یہ ایک خوفناک لڑائی ہوگی جس کا مرکز پختونخواہ ہوگا اور جس میں چند لوگ ڈالر بنائیں گے لیکن عوام تباہ ہوگی۔ دوسری جانب چین نے پچھلے پچاس سال سے جنگ نہیں لڑی، کسی حکومت کا تختہ نہیں الٹایا، اور کسی ملک پر اقتصادی پابندیاں نہیں لگائیں۔ سامراجی محاصرے کے دوران اس نے کوشش کی ہے کہ ہر تیسری دنیا کے ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات بنیں جس میں ان ممالک کی اندرونی تضادات کی وجہ سے پچیدگیاں ضرور پیدا ہوئی ہیں۔ لیکن حیرت ہوتی ہے جب مغربی پروپیگنڈہ کے شکار چند نام نہاد ترقی پسند دانشور امریکہ اور چین کو سامراج کہہ کر ایک ہی صف میں کھڑا کردیتے ہیں۔ ایک ملک اس وقت دنیا ہر خطے میں جنگ لڑ رہا یے، غزہ میں نسل کشی کروارہا ہے، درجنوں ملکوں پر پابندیاں لگانے کے ساتھ حکومتوں کے تختے الٹا رہا یے اور ہمارے خطے میں خوفناک جنگ کی تیاری کررہا ہے، جبکہ دوسرا ملک اپنا اثر تجارت اور باہمی رشتوں کے ذریعے مظبوط کرنے کی بات کرہا ہے۔ غلطیاں سب کرتے ہیں۔ مگر ان دونوں رجحانات کو یکساں دیکھنا نہ صرف نظریاتی بددیانتی ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی کسی بھی تحریک کو مفلوج کردینے کے مترادف ہے۔
بہرحال، جو فیصلے واشنگٹن اور پنڈی کے درمیاں ہوئے ہیں، وہ ضروری نہیں کامیاب ہوں۔ نہ امریکہ کی وہ طاقت ہے جو 30 سال پہلے تھے اور نہ ہی پنڈی کے لئے عوام میں آج نرم گوشہ موجود ہے۔ اور نام نہاد جہاد اور اغیار کے لئے جنگوں کے خلاف ملک بھر میں نفرت موجود ہے جبکہ سندھ میں کینال ایشو پر مزاحمت سے واضح ہوجاتا ہے کہ عوام منظم ہونے کے لئے تیار ہے۔ ن لیگ اور پی پی ریت کی بوریاں ہیں جو اس نظام کا مزید تحفظ نہین کرسکتیں۔ اہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں جنگ مخالف اور عوامی حقوق کی تحریک کو منظم کیا جائے تاکہ ڈالری جنگوں میں 10 نسلیں مزید برباد کرنے کے بجائے ہم اپنی ہی زندگیوں میں اس خطے میں امن، آزادی اور ترقی دیکھ سکیں۔