Author
پچھلے ہفتے کے 3 واقعات مستقبل میں ملکی اور عالمی حالات کی سمت کا تعین کریں گے۔ اسحاق ڈار اور امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو کے درمیان فون پر رابطہ اور “counter-terrorism” آپریشن کرنے پر اتفاق، معدنیات کے حوالے سے خیبر پختونخواہ اسمبلی میں بل، اور چین اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ۔
تجارتی جنگ پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ یہ امریکی جارحیت کی ایک بدترین مثال ہے جس کے زریعے وہ اپنی کمزور ہوتی ہوئی معیشیت کو سہارا دینے کی کوشش کررہا ہے۔ ان اقدامات سے پچھلے 50 سال کے اپنے ہی بنائے ہوئے فری مارکیٹ بیانئے کودفنانے کے ساتھ ساتھ امریکہ نے اپنے تخلیق کئے ہوئے عالمی نظام کو بھی کمزور کردیا ہے۔ امریکہ کے اندر اس وقت اپنی زوال پزیر معیشیت اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے حوالے سے شدید بحث پائی جاتی ہے جس کا اظہار عالمی سطح پر ہورہا ہے۔
دوسری جانب اسحاق ڈار اور مارکو روبیو کی گفتگو میں دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کے اوپر رضامندی کی گئی۔ یہ کونسی دہشت گردی ہے جس سے امریکہ کو اتنا خطرہ ہے؟ حقیقت یہ یے کہ امریکہ چین سے مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے خطے میں ایک اور جہاد کی تیاری کررہا ہے جس طرح 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کو توڑنے کے لئے ایک نام نہاد جہاد کروایا گیا تھا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس جنگ میں بنیاد طور پر پاکستان، افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے ممالک کو استعمال کیا جائے گا جبکہ دوسری جانب ہندوستان کو عسکری طور پر خطے میں چین کے خلاف تیار کیا جائے گا۔ تیسری حکمت عملی جاپان، تائیوان، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کے ذریعے چین کے عسکری اور معاشی محاصرے کو مزید مظبوط کرنا ہوگی۔
اسی صورتحال میں معدنیات کے حوالے سے خبر کی اہمیت بڑھ جاتی۔ چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ میں ایک بڑی اہمیت critical minerals کی یے جو آج کے پیداواری نظام کے لئے ناگزیر ہیں۔ امریکہ ان معدنیات تک رسائی کے لئے خطے پر جنگ مسلط کررہا ہے۔ مشرقی وسطی میں تیل تک رسائی کے لئے عراق لیبیا سمیت کئی عرب ممالک پر مسلسل بمباری کی گئی۔ اسی طرح یوکرائن کو پہلے روس کے خلاف ایک خوفناک جنگ میں تباہ کیا گیا اور پھر روس سے براہ راست بات چیت کرکے یوکرائن کو تنہا بھی چھوڑ دیا اور یہ شرط لگا دی کہ اگر تباہ حال ملک کو پھر سے آباد کرنا چاہتے ہو تو اپنے قدرتی وسائل بشمول معدنیات اور زراعت ہمارے حوالے کرو۔
یہی حال ماضی میں پاکستان کے ساتھ ہوا ہے جب 1980 کی دہائی کی جنگوں میں پاکستان کی معیشت کو تباہ کر کے 1990 اور 2000 کی دہائی میں حکومتوں کو بڑے پیمانے پر ملکی اثاثے بیچنے پر مجبور کیا۔ اور اسی کھیل کا اب ایک نیا راؤنڈ شروع ہونے والا ہے۔ ایک طرف ڈالری جنگیں جن میں خطے کی تباہی ہوگی لیکن ماضی کی طرح چند لوگوں کی موج ہوجائے گی۔ دوسری جانب معدنیات، دریا، پہاڑ، زراعت اور دیگر قدرتی وسائل مغرب کو بیچ کر پاکستان کو ایک banana Republic بنادیا جائے گا جس کا واحد مقصد استعماری قوتوں کو فائدہ پہنچانا ہوگا۔ اس حوالے سے پنڈی نے خیبر پختونخواہ میں معدنیات کے حصول کے لئے “انقلابی کابینہ” سے بل منظور کروالیا ہے۔ اسی پالیسی کے ذریعے گلگت بلتستان اور بلوچستان کے وسائل بھی بیچے جائیں گے جبکہ سندھ اور پنجاب میں کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر خلیجی ریاستوں کو ہماری زرخیز زمین بیچی جائے گی۔
آخر میں یہ بات کرنا اہم ہے کہ تاریخی طور پر جن ممالک نے صرف معدنیات اور قدرتی وسائل کے ذریعے ترقی کرنے کی کوشش کی ہے، وہ اکثر اوقات برباد ہوئے ہیں۔ اسے پولیٹیکل سائنس میں resource curse کہتے ہیں جس کی وجہ سے نا صرف ایک چھوٹی اشرافیہ معیشیت پر قابض ہوجاتی یے، بلکہ بیرونی مداخلت اور اندرونی لڑائی جھگڑا بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ پالیسی انڈسٹریل پالیسی کے بلکل برعکس ہے جس میں قدرتی وسائل کو ایک صنعتی پلان کے تحت استعمال کیا جاتا ہے جس سے معیشت بھی مستحکم ہوتی یے، عوام کو نوکریاں بھی ملتی ہیں اور ملکی سالمیت بھی قائم رہتی یے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے وسائل اور عوام کو اغیار کو بیچنے والے لوگ ہی اس ملک میں غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بھی بانٹتے ہیں۔
پاکستان ایک بار پھر نئی سرد جنگ میں مغربی مہرہ بننے جارہا یے۔ ملک گیر جنگ مخالف مہم کے ساتھ ساتھ اس خطے کے اندر اتحاد اور باہمی یکجہتی کے جذبات اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ورنہ جو حشر یوکرائن، شام اور لیبیا کا ہوا ہے، خطے کی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کا حشر اس سے بھی بدتر ہوسکتا ہے۔