Author
نئے صوبوں کا منصوبہ ون یونٹ کی ایک نئی شکل یے۔ 1950 کی دہائی میں اقتدار میں بیٹھی اشرافیہ نے اس ملک اور خطے کو سرد جنگ کے دوران امریکی مفادات میں استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس فیصلے کی منظوری کسی اسمبلی میں بحث کے بغیر مسلط کی گئی تھی جس سے یہ عندیہ دیا گیا کہ اب ملک کو ایک مضبوط مرکز کے ذریعے چلایا جائے گا۔ اس مرکزیت میں کلیدی کردار بیوروکریسی اور فوج کے حصے میں آیا اور اس پورے پلان کو امریکہ اور مغربی بلاک کی حمایت حاصل رہی جن کی پشت پناہی کی وجہ سے پاکستان میں آمریت پروان چڑھی۔
ون یونٹ کی پالیسی بندوق کے ذریعے عوام پر پاکستانیت مسلط کرنے کی ایک ناکام کوشش تھی۔ جس طرح 1980 کی دہائی میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ہماری اشرافیہ نے جہاد کا لفظ استعمال کیا تھا، اسی طرح 1950 اور 1960 کی دہائی میں ون یونٹ اور پاکستانی شناخت کو استعمال کرکے سماج پر تسلط قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں میں پاکستان تحریک کے لیڈران بشمول فاطمہ جناح، حسین شہید سہروردی، حیدر بخش جتوئی، اور کئی اور نامور شخصیات اس پالیسی کے خلاف تحریک چلانے پر مجبور ہوگئے۔
اس پالیسی کے دو بڑے نقصانات ہوئے۔ ملک میں یکسانیت بڑھنے کے بجائے نفرتیں بڑھنا شروع ہوگئیں جو بالآخر 1971 میں پاکستان کے ٹوٹنے کی وجہ بنیں۔ ہر تاریخی شناخت کو دبا کر ایک نئی شناخت کا تقاضا کرنا ایک غیر ضروری، فرسودہ اور جابرانہ عمل ہے۔ عوام کو بھی بہت جلد معلوم ہوگیا کہ یہ سب کچھ ملک سے محبت میں نہیں بلکہ اشرافیہ کی ڈالروں سے محبت کے لئے ہورہا ہے جس کی وجہ سے اس پالیسی کے خلاف نفرت بڑھی اور 1970 کے انتخابات میں عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت تمام پارٹیوں نے اپنے منشور میں ون یونٹ ختم کرنے کی بات کر کے عوامی تائید حاصل کی۔ دوسری جانب اس پالیسی کی وجہ سے ملکی سیاست میں لسانیت کا عمل بڑھ گیا کیونکہ سیاسی بحث معاشیات اور طبقاتی بحثوں سے ہٹ کر مکمل طور پر شناخت تک محدود ہوگئی۔ ترقی پسند سیاست کا دائرہ مزاحمت تک محدود ہوکر رہ گیا لیکن ترقی پسند حلقوں میں متبادل نظام کے اوپر بحث مزید کمزور ہوگئی۔
آج 12 یا 15 صوبے بنانے کی بات اسی فلسفے کے تحت ہورہی ہے جس کے تحت ون یونٹ نافظ کیا گیا تھا یعنی اشرافیہ کا مرکز کے ذریعے سماجی ڈھانچے پر مزید کنٹرول کیسے بڑھایا جائے۔ مقصد ایک بار پھر عوام کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ ایک نئی سرد جنگ کے اندر ممکنہ ڈالروں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش ہے جس میں آج بھی صوبائی حکومتیں پنڈی کے تابع ہونے کے باوجود ایک ہلکی پھلکی رکاوٹ ہیں۔ امریکہ ایک بار پھر معدنیات کے حصول اور چین کو روکنے کے لئے پاکستان کو استعمال کرنے کے پلان بنا رہا یے۔ “فیڈریشن” “گڈ گورننس” اور اس طرح کی دیگر اصطلاحات اشرافیہ کے عزائم پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش یے۔ عوام کے حصہ میں صرف جنگ اور استحصال آئے گا جبکہ اس تباہی کا فائدہ ان کو ہوگا جنہوں نے اپنے لئے SIFC جیسے ادارے بنائے ہیں۔
تاریخی شناخت سے ڈرنا اور سماج سے اس کا تاریخی حافظہ چھیننے کی کوشش کرنا ایک بزدلانہ فعل ہے جس کا ملکی استحکام سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر معاملہ صرف گورننس کا ہے تو پھر نئے صوبے بنانے کے بجائے لوکل باڈیز اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا جائے تو بہت بہتر کوگا۔ لیکن ترقی کے مسائل یہ سب کرنے سے بھی حل نہیں ہوں گے۔ جب تک مرکزی سطح پر یہ طے نہیں ہوگا کہ ترقی کا مقصد مافیا کی مدد کرنا ہے یا پھر پاکستانی عوام کی بہتری، اس وقت تک صوبائی اور مقامی حکومتیں بھی وہی کچھ کرسکتی ہیں جو انہوں نے اٹھارویں ترمیم کے بعد حاصل کیا، (یعنی بہت تھوڑا)۔ اور اس بات کو طے کرنے کے لئے ملکی اور عالمی صورتحال کے مدنظر مرکزی لیول پر پلاننگ ناگزیر ہے جس کے بعد گورننس کی زمہ داری مقامی حکومتوں کی ہوگی۔ لیکن اس بحث کی طرف جانے کی بجائے حکمران امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایک بار پھر معاشرے کو ریاستی جبر اور اس کے نتیجے میں نکلنے والی لسانیت کے دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ آئین میں نئے صوبے بنانے کا عمل بہت پیچیدہ ہے۔ لیکن ملک کو چلانے والوں نے مرکزیت کے نام پر خیبر سے لے کر کراچی تک اپنے معاشی اور سیاسی شکنجے کو مضبوط کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ لیکن یہ 1950 کی دہائی نہیں۔ عوام باشعور ہیں اور اس طرح کی کسی بھی چال کو شکست دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔