NE

News Elementor

What's Hot

” Prophet Song” ناول اجتماعی ضمیر پر دستک

Table of Content

Author

کوشش کرتا ہوں ان خیالات کو ترتیب دینے اور بیان کرنے کی،جو پال لِنچ کے ناول Prophet Song کو پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں اُبھرے، پھر بے ترتیب ہوئے اور اب غم میں ڈوبتے محسوس ہو رہے ہیں۔ اس ناول کا ترجمہ جناب عمران الحق چوہان صاحب نے ”باقی ہے شبِ فتنہ“ کے عنوان سے کیا ہے۔ مترجم عمران الحق چوہان صاحب کی یہ کاوش حد درجہ قابلِ ستائش ہے کہ انھوں نے ترجمے کے لیے ایک ایسے ناول کو چنا جو آج کے عہد کے ایک حساس اور نازک مسئلے کو ناصرف یہ کہ بیان کرتا ہے بلکہ احساساتی سطح پر اپنے قاری پر گہرا اثر بھی چھوڑتا ہے۔ یہ ناول ایک ایسے تصوراتی آئر لینڈ کی منظرکشی کرتا ہے جہاں آمریت اور فسطائیت کے سائے دن بدِن گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پھر یہی فسطائیت عدم برداشت کے رویوں کی آبیاری کرتے ہوئے خانہ جنگی کو پروان چڑھانے کا باعث بنتی ہے۔ ناول سٹاک خاندان کے چار بچوں اور میاں بیوی کے گرد گھومتا ہے۔ ناول کا آغاز ایک گھر کے منظر سے ہوتا ہے جہاں سب کچھ پر سکون چل رہا ہے، جہاں بچے مستقبل کے سہانے خواب بُن رہے ہیں اورماں بچوں کی تربیت اور روشن مستقبل کے بارے سوچ رہی ہے۔ ایسے میں اچانک خفیہ ایجنسی کے دو لوگ لیری سٹاک سے ملنے کے لیے اس گھر میں آتے ہیں۔لیری سٹاک کی گھر میں عدم موجودگی پر لیری سٹاک کی بیوی آئلش سٹاک کو کہا جاتا ہے کہ لیری کو جلد از جلد ایجنسی کے آفس میں تحقیقاتی انٹرویو کے لیے بھیجا جائے۔ سٹاک خاندان کا سربراہ لیری سٹاک ایک ٹیچر ہے اور ٹیچرز کی نمائندہ یونین کا سرگرم رکن بھی ہے۔ یونین حکومت کی طرف سے مختلف بجٹ کَٹس، اساتذہ کو نوکریوں سے برطرف کرنے،انسانی حقوق کی معطلی اور آئین شکنی پر احتجاج کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ لیری سٹاک ایجنسی کے آفس ملاقات کے لئے جاتا ہے جہاں اُسے تمام طرح کے سیاسی معاملات سے دور رہنے کی وارننگ دی جاتی ہے۔خفیہ ایجنسی سے وارننگ ملنے کے باوجود حکومت مخالف احتجاج میں لیری سٹاک بھرپور حصہ لیتا ہے جسے ایجنسیاں ایک پرتشدد مظاہرے میں بدل دیتی ہیں۔ احتجاج کے بعد لیری سٹاک کے بارے کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں چلا گیا ہے۔ ظاہری بات کہ اسے سرکار نے گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن حکومت اس کی گرفتاری کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتی ہے۔ لیری سٹاک کی بیوی آئلش اپنے شوہر کو ڈھونڈنے کی بے حد کوشش کرتی ہے لیکن کسی طرح کی کوئی خبر سامنے نہیں آتی۔ اُس کے شوہر کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ غائب کر دیئے جاتے ہیں جن کے بارے کسی طرح کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ دن بدن ریاستی جبر کے باعث مسنگ پرسنز کی فہرست طویل تر ہوتی چلی جاتی ہے اور لواحقین کا غم و غصہ بھی بغاوت کا روپ دھارنا شروع کر دیتا ہے۔ اپوزیشن کو بزور بازو دبایا جا رہا ہے۔ریاستی جبر و استبداد کو قانونی تحفظ دینے کے لئے قانون سازی کی جا رہی ہے۔ جوں جوں آئلش کی اپنے شوہر کو ڈھونڈنے کی جدوجہد تیز ہوتی چلی جاتی ہے توں توں ریاست کا جبر بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آئلش کی وکیل کے اسسٹنٹ کو گرفتار کرکے مسنگ پرنسنز کے معاملے سے دور کر دیا جاتا ہے۔ آئلش کے لئے جہاں بیرونی محاذ پر معاملات پیچیدہ ہوتے چلے جارہے ہیں وہیں گھر کے اندر بھی اُسے اپنے بچوں کو معاملات کی نزاکت سمجھانے اور شوہر کی بازیابی کے حوالے سے بچوں کو اپنی کوششوں کے بارے باور کروانے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑا بیٹا مارک جو کہ سترہ سال کا ہونے والا ہے دن بدن نظریاتی طور خود کو باغی فورسز کے قریب ہوتا محسوس کرتا ہے جو کہ ملک کے شمال میں اکٹھا ہو رہے ہیں۔ بارہ سال کا بیٹا بیلی اور چودہ سال کی مالی یہ سمجھتے ہیں کہ ماں اُن کے باپ کو بازیاب کروانے کے ٹھیک طرح کوشش نہیں کر رہی۔ صورتحال لیری سٹاک کے غائب ہونے تک نہیں رکتی بلکہ جلد ہی آئلش کو سرکار سے یہ پیغام ملتا ہے کہ مارک کو سترہ سال کا ہوتے ہی ملک کی سیکیورٹی فورس کو جوائن کرنا پڑے گا۔ مارک قطعی طور پر سیکیورٹی فورس کو جوائن کرنا نہیں چاہتا کہ یہی تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے اُس کے باپ کو غائب کیا تھا۔ حکومتی دباؤ زیادہ بڑھنے پر پہلے مارک کچھ عرصہ پولیس سے چھپا رہتا ہے پھر شمال میں باغیوں کے جتھوں کے ساتھ جا ملتا ہے۔ شروع شروع میں وہ اپنی ماں سے رابطے میں رہتا ہے لیکن پھر اُس سے بھی رابطہ منقطع ہو جا تا ہے۔ آئلش جہاں شوہر کے حوالے سے ہر وقت بے چین رہتی ہیں وہیں اب وہ اپنے جواں سال بیٹے کے لئے بھی فکرمند رہتی ہے۔ ایسے میں آئلش پر اُس کے باپ سائمن اور کینیڈامیں مقیم بہن آنیا کا دباؤ بڑھتا چلا جاتا ہے کہ وہ بچوں سمیت ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک مقیم ہو جائے۔ لیکن آئلش یہ کہہ کر اُن کی باتوں کو رد کر دیتی ہے کہ جب اُس کا شوہر اور بیٹاگھر واپس آئیں گے تو اُن کو بہت بُرا محسوس ہو گا۔ آئلش کی بہن اُسے حالات کے سنگینی بارے باور کرواتے ہوئے متوقع خانہ جنگی کے بارے بھی آگاہ کرتی ہے کہ باغی دن بدن اُس کے شہر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایک بھر پور رجنگ اُس کے دروازے پر دستک دینے ہی والی ہے لیکن آئلش اپنے شوہر اور بیٹے کو چھوڑ کر جانے سے مسلسل انکاری ہے یہاں تک کہ باغی فورسز اُس کے شہر کے اُس حصے پر بھی قبضہ کر لیتی ہیں جہاں آئلش اپنے بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ جلد ہی شہر حکومتی بمباری کے سبب کھنڈر میں بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ آئلش کے باپ سائمن کو اُس کی بہن آئرلینڈ سے نکلوانے میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن آئلش تمام تر تنگدستی، بھوک پیاس اور خوف کے باوجود اپنے ہی شہر میں رہنے پر مُصر ہے۔ شہر دیکھتے ہی دیکھتے تباہی کی داستان بن جاتا ہے،ہر طرف گولہ باری اور لڑاکا طیاروں کی گھن گرج ہے، مکان ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں،سڑکیں کھدری پڑی ہیں، لوگ کھانے کو چیزیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں لیکن آئلش اپنے شوہر اور بچے کی محبت اور انتظار میں اپنے کھنڈر ہوتے شہر میں ڈٹی ہوئی ہے۔ لیکن آئلش کی یہ سب استقامت اُس وقت ڈھ جاتی ہے جب ہوائی جہاز کی بمباری کے سبب اُس کا بیٹابیلی معمولی زخمی ہو جاتا ہے۔ بیلی کو شہر کی دوسری سمت،جہاں حکومت کی عملداری ہے ہسپتال میں داخل کروایا جاتا ہے لیکن اُسے ایک ملٹری ہسپتال ٹرانسفر کرنے کے بعد باغیوں کا ساتھی سمجھ کر تشدد کرکے مار دیا جاتا ہے۔تیرہ سالہ بیٹے کی لاش دیکھنے کے بعد آئلش کا حوصلہ پست ہوجاتا ہے اور وہ اپنے باقی بچوں کو بچانے کے لئے اپنی کینڈا میں مقیم بہن کی مدد سرحدپار کر کے انگلینڈ پہنچ جاتی ہے۔ ناول کے اختتام پر آئلش اپنے شیِرخوار بچے بین اور بیٹی مالی کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر سمندرکا سفر کرنے کے لئے تیار ہے۔ ناول اپنے اختتام تک پہنچتے پہنچتے احساساتی سطح پر جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے کیونکہ کہانی بیان کرتے ہوئے پال لِنچ بیرونی حالات و اقعات پر زور دینے کی بجائے آئلش کے خاندان کی احساساتی زندگی کو بیان کرنے پر فوکس کرتا ہے وہ بھی ایک عورت کے زاویہ نظر سے جس کا شوہر اور دوبیٹے ریاستی جبر کا شکار ہو چکے ہیں۔ ناول آمرانہ حکومت کے نقطہ نظر سے معاملات کو دیکھنے سے قاصر ہے کہ ہر آمرانہ حکومت کے اپنے ہی کچھ جواز ہوتے ہیں۔ جیسے آبادی کا ایک خاص حصہ ریاست مخالف اقدامات کر رہا ہے، بجٹ کَٹس لگانا حکومت کی مجبوری ہے ناکہ شوق، لوگ دشمنوں کے پھیلائے پراپیگنڈے کا شکار ہیں، ریاست عوامی بھلائی کے لئے فلاں فلاں اقدامات اُٹھارہی ہے، سرکار نسلی پاکیزگی کے لئے فلاں فلاں اقدامات اُٹھا رہی ہے، ریاست معاشرتی اقدار کی پامالی نہیں ہونے دے گی، ریاست مذہبی احکامات کے خلاف کچھ نہیں ہونے دے گی، فلاں فلاں طریقے سے سوچنے والا شخص غدار سمجھا جائے گا۔ سرکار چاہے جتنے بھی عُذر تراش لے لیکن یہ بات طے ہے کہ خانہ جنگی سے پہلے سرکار اور عوام کے درمیان خلیج بڑھتا چلا جاتاہے۔ ناول بین الاقوامی برادری کے کردار پر بھی کڑی تنقید کرتا ہے جو خانہ جنگی یا جنگ میں الجھے ممالک کے حالات و واقعات کو دور سے بیٹھے دیکھنے میں مشغول رہتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ خانہ جنگی میں لپٹے ممالک پر اقتصادی پابندیاں عائد کر کے اپنا پَلو جھار کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہو جاتی ہے۔ آئلش پورے ناول کے دوران بین الاقوامی دباؤ کے بارے بہت پُرامید رہتی لیکن بربادی ہر حال میں آکر ہی رہتی ہے۔ ناول کے آخری تین صفحات یہ بتاتے ہیں کہ دنیا کہ کسی ایک حصے میں آنے والی تباہی باقی دنیا کے لئے بیدار ہونے کا پیغام لے کر آتی ہے۔ کہیں دور دراز کے ملک میں ہونے والی بربادی دوسری اقوام کی سرکار اور عوام کو خود احتسابی کی بھی دعوت فکر دیتی ہے۔ یہ ناول ہم انسانوں کے اجتماعی ضمیر پر بھی دستک دیتا ہے کہ ہم کب تک جنگوں اور خانہ جنگیوں جیسے دائروں میں سفر رکرتے رہیں گے۔ ناول بین السطور یہ بھی بتاتا ہے کہ آمرانہ حکومتیں اپنے شہریوں کو یہ باور کروانے کے لئے آخری حد تک جاتی ہیں کہ بدلے ہوئے معروض میں شخصی آزادیوں کے تصورات بھی یکسر بدل کر رہ جاتے ہیں اور عوام کو بغیر کسی حیل و حجت کے اپنے حقوق سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ یہاں ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ جب ہم ایسے بہت سے ممالک کی تاریخ کھنگالتے ہیں جن کی عوام بظاہر شخصی آزادیوں کے لئے تحریک چلا رہے تھے وہ تحریکیں اُن اقوام کی مکمل بردبادی پر منتج ہوئیں۔ایسے میں بسا اوقات آزادی اپنے آپ میں ایک ایسا تصور بھی بن جاتی ہے جس کا مطلب تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے ہوتے ہوئے کسی اور قوم یا قبیلے کا غلام بن جانا بھی ہوتاہے۔ اختتام پر ایک بار پھر عمران الحق چوہان صاحب کا شکریہ جنھوں نے اس ناول کا ترجمہ کرنے کی ذمہ داری اٹھائی اور بطریق احسن اس ذمہ داری کو نبھانے میں کامیاب بھی ہوئے۔یہ ناول سٹی بُک پوائنٹ کراچی نے اسی سال یعنی سن 2025میں چھاپا ہے۔ کتاب کی قیمت1300روپے ہے۔

عبدالوحید

editor@rightinfodesk.com

افسانہ نگار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent News

Trending News

Editor's Picks

کہ خوشی سے مر نا جاتے گر اعتبار ہوتا۔

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. پاکستانی ریاست اس وقت ٹی ایل پی کے مظاہرین پر گولیاں برسانے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں طالبان کے خلاف آپریشن کررہی ہے۔ ایک طرف اندرونی طور پر یہ کہا جارہا یے کہ یہ شر پسندوں کے خلاف آپریشن ہے تو دوسری جانب افغان طالبان پر...

مترجم کی موت, جارج سزرٹس، لازلو کراسزنا ہورکائی کے مترجم کا شکوہ

Author Dr. Furqan Ali Khan Medical doctor, activist ,writer and translator جارج سزرٹس کا شکوہ لازلو کراسزنا ہورکائی کے نوبل انعام جیتنے پر میں نے جتنی پوسٹیں لکھی ہیں وہ تقریباً ان کے طویل جملوں میں سے ایک کے طور پر اہل ہیں۔ آج صبح میں اس کے بارے میں مضامین تلاش کر رہا ہوں...

نسل کش صہونی ریاست نے فلوٹیلا پر حملہ کرکے کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. نسل کش صہونی ریاست نے فلوٹیلا پر حملہ کرکے کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس میں پاکستان سے سینیٹر مشتاق خان بھی شامل ہیں جنہیں اسرائیلی ملٹری نے زیر حراست رکھ لیا ہے۔ میرا بہت قریبی دوست، ڈیوڈ ایلڈلر David Adler, کی بھی گرفتاری کی...

کشمیر کے تمام شہریوں، اور خصوصی طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کارکنوں و لیڈران کو مبارک جنہوں نے بہترین حکمت عملی اور ثابت قدمی کے ذریعے حکومت کو ان کے مطالبات منظور کرنے پر مجبور کیا

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. کشمیر کے تمام شہریوں، اور خصوصی طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کارکنوں و لیڈران کو مبارک جنہوں نے بہترین حکمت عملی اور ثابت قدمی کے ذریعے حکومت کو ان کے مطالبات منظور کرنے پر مجبور کیا۔ ان تمام لوگوں کو شرم آنی چاہئے جو مسلسل...

ٹرمپ کے غزہ پلان پر 9 نکات

Author Ammar Ali Jan Pakistani Political Activist and Historian. 1۔ یہ معاہدہ فلسطینی قیادت اور عوام کو اعتماد میں لئے بغیر کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ سامراجی  قوتوں اور اس کے حواریوں کی طرف سے غزہ پر مسلط کیا گیا ہے۔ 2 سال کی مسلسل بربریت اور نسل کشی کے بعد حماس اور...

News Elementor

Right Info Desk – A Different Perspective

Popular Categories

Must Read

©2025 – All Right Reserved by Right Info Desk