Author
کل ٹرمپ نے بھارت کے خلاف دو بیان دیئے۔ ایک طرف بھارت پر ٹیرف بڑھانے کی بات کی تو دوسری طرف بھارت کے روس کے ساتھ معاشی تعلقات پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھارت کی ضرورت نہیں۔ دو دن پہلے بھارتی پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے نریندر مودی کو طعنہ دیا تھا کہ انہوں نے آپریشن سندور ٹرمپ کے کہنے پر روکا جس کو مودی نے رد کیا تھا لیکن کل ٹرمپ نے اس کی تصدیق کرکے مودی سرکار کو ایک بار پھر شرمندہ کردیا۔ یاد رہے، ابھی فروری میں ہی ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ ایک چین مخالف دفاعی تعاون کی ڈیل کی تھی جبکہ روس کے ساتھ بھی یوکرائن کے معاملے پر سمجھوتے کررہا تھا لیکن اب دونوں سے اختلافات بڑھ گئے ہیں۔ یہ واقعات امریکی پالیسی میں بڑھتے تضادات کے ساتھ ساتھ بھارت کی ایک بڑی ناکامی ہے جس کی بنیادی وجہ مودی سرکار کا خطے اور عالمی سطح پر جارہانہ پالیسی ہے جس نے اس کے تعلقات چین، بنگلہ دیش، کینیڈا اور اب امریکہ کے ساتھ خراب کردیئے ہیں۔
اس خبر کے ساتھ ٹرمپ نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان معدنیات اور تیل کی ڈیل کی خبر بھی امریکی عوام کو سنائی۔ پاکستان میں اس وقت خوشی کی ایک لہر دوڑ رہی یے۔ اس طرح کی خوشی ہر چند سال بعد پاکستان کی اشرافیہ کو نصیب ہوتی ہے۔ 1953/1954 میں سیٹو سینٹو کے دفاعی معادے، 1980 میں افغان جہاد، 2001 میں دہشت گردی کے خلاف جنگ، اور اب معدنیات کی ڈیل۔ اشرافیہ کی اس خوشی کے بدلے ان کے حصے میں اربوں ڈالر آئے ہیں لیکن عوام کی حالت یہ یے کہ 45 فیصد سے زائد غربت کئ لکیر کے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں جبکہ ملک کے کئی حصوں، خصوصی طور پر پختون خواہ اور بلوچستان میں ایک نہ ختم ہونے والے ملٹری آپریشن چل رہے ہیں۔
یہ نیا معاہدے بھی کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ معدنیات اور تیل معلوم نہیں کب نکلے گا (امریکہ نے ماضی کی وارداتوں میں بھی معاشی ترقی کے وعدے کئے تھے) لیکن ہمارے ملک کو سرد جنگ کا ایک بار پھر مرکز بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ SIFC بنا کر ہمارے آل راؤنڈرز نے یہ بات یقینی بنا لی ہے کہ تمام بیرونی سرمایہ کاری انہی کے ذریعے پاکستان داخل ہوگی۔ جو راستے میں آئے گا اسے کاٹ دیا جائے گا۔ مولانا خانزیب کی شہادت کے بعد آج فیصل آباد میں اپوزیشن لیڈران کو دہشت گردی کی عدالت میں سزائیں سنوانا آل راؤنڈرز کے نئے اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔
لیکن یاد رکھیں کہ ٹرمپ کسی کا بھی نہیں ہے۔ بھارت اور روس کے ساتھ ایک دن مذاکرات کرتا ہے تو دوسرے دن ان کے خلاف بیان دے دیتا ہے۔ ٹرمپ کے تضادات صرف ایک شخص کے ذہنی تضادات نہیں بلکہ ایک زوال پذیر سامراج کے تضادات کی عکاسی ہیں۔ وہ نہ یوکرائن اور روس کو اپنی بات منوا سکتا ہے، نہ یورپ پر ماضی کی طرح غلبہ قائم رکھ سکتا ہے اور نہ ہی وہ ایران میں رجیم چینج کو کامیاب کرسکتا ہے۔ اب پاکستان کی ریاست سے بھی ڈیل کررہا ہے اس کے باوجود کہ پاکستان اور چین کا دفاعی تعاون توڑنا اب تقریبا ناممکن ہوگیا یے۔ بہت جلد اس دفاعی تعاون اور سی پیک کو بہانہ بنا کر ایک بار پھر پاکستان ہر دباؤ بڑھ جائے گا۔
اس لئے جو لوگ ابھی خوشی میں چھلانگیں لگا رہے ہیں، وہ آرام کرلیں کیونکہ امریکہ کی دشمنی سے زیادہ خطرناک امریکہ کی دوستی یے۔ اور جو لوگ ملک میں امن، ترقی، آئین کی بحالی اور ایک آزاد اور خود مختار وفاق دیکھنا چاہتے ہیں، وہ مایوس نہ ہوں۔ ٹرمپ اپنے سامراج کو نہیں بچا پارہا، وہ ہمارے نا اہل حکمرانوں کو بھی نہیں بچا پائے گا۔ جراتمندی کا تقاضا ہے کہ دیرپا حکمت عملی بنا کر جنگ اور سامراج مخالف تحریک کو ملک بھر میں منظم کیا جائے تاکہ لاشوں کے سوداگروں کا راستہ روکا جاسکے۔ 25 کروڑ لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ واشنگٹن نہیں، بالآخر پاکستان کے اندر ہی ہونا ہے۔ لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے۔