Author
اَسی کی دہاٸی کے اواخر کے سالوں کا واقعہ ہے کہ ہمارے محلے میں ایک پٹھان جوسر مشینیں، استریاں اور کراکری کے سیٹ فروخت کرنے آیا یہ اُسی قبیل کا پٹھان تھا جو دس ہزار کا قالین کہہ کر پانچ سو میں بیچ جایا کرتے ہیں۔ خالہ گیٹ والی، جن سے ہم محلے کے بچے قرآن پڑھا کرتے تھے اور ان کے گھر کا دروازہ باقی گھروں کے دروازوں سے بڑا بھی تھا اسی نسبت سے خالہ کے ساتھ گیٹ والی کا لاحقہ بھی جڑ گیا تھا،خیر خالہ گیٹ والی نے کراکری کا سیٹ خریدنے کے لیے پٹھان کو روکا۔ سیٹ پسند کرنے کے بعد خالہ نے جب قیمت پوچھی تو خان صاحب نےدو ہزار روپیہ بتاٸی یہ ان وقتوں کی بات ہے جب ایک عام ملازم کی تنخواہ ڈیڑھ دو ہزار ہوا کرتی تھی۔ خالہ نے اس کی بات کو برداشت کیا اور متانت کے ساتھ کراکری سیٹ کی قیمت پچاس روپے لگاٸی۔ پٹھان یکدم غصے میں آگیا اور تقریباً چیختے ہںوۓ بولا ”باجی کیا مذاق کرتی ہے“ خالہ نے کمال کا جواب دیا” پٹھانا جے تو مذاق کر سکنا ایں تے کی میں مذاق نہیں کر سکدی اتوں میرا مذاق وی تیرے مذاق نالوں ہولا وی اے“ بس پھر اس کے بعد بارگیننگ کا لامتناہی سلسل شروع ہوگیا۔ کبھی خالہ اپنے دروازے کی طرف جاۓ تو پٹھان دو سو کم کر دے، کبھی پٹھان سامان لپیٹنے لگے تو خالہ بیس تیس بڑھا دے۔ آخر سودا ڈیڑھ سو روپے میں طے پایا۔ ہم حیران کہ کہاں دو ہزار کہاں ڈیڑھ سو روپیہ۔ دو ہزار کا کہہ کر ڈیڑھ سو میں بیچنے جیسا کام پشتونوں کی قوم پرست پارٹی پی ٹی آٸی ”پشتون طریقہ اظہار“ نے 26 نومبر کو اپنے احتجاج کے اختتام پر کیا کہ پہلے اپنے شہیدوں کی تعداد دو سو اٹھہتر بتاٸی اور کل ان کا سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم بارہ اموات کی تعداد پر کھڑا زخمیوں کی مزید اموات کے حوالے سے دعا گو تھا۔ یہی فسطاٸی ہتھکنڈے ہوتے ہیں کہ جھوٹ اتنا بڑا بولو کے سننے والے کے حواس معطل ہوکر جھوٹ کے دھارے میں بہہ جاٸیں۔ جب تک جھوٹ کا علم ہو تب تک ناقابل تلافی نقصان ہو چکا ہو۔ آپ احباب کو دو ہزار تیرہ کے الیکشن کا پینتیس پنکچر والا ”پشتون طریقہ اظہار“ کا بیانیہ بھی یاد ہوگا جس کے جھوٹ اور مبنی بر افواہ ہونے کا اعتراف نیازی نے دو ہزار سولہ میں کیا جب نجم سیٹھی نے اسے عدالت میں گھسیٹا۔ یہ وہ اعتراف تھا جس نے ”پشتون طریقہ اظہار“ کے ورکروں کے ایک سو چھبیس دن کے گھنگرو توڑ ڈانس کو یکسر رد کر دیا تھا لیکن آج کسی شعوریے کو یہ یاد بھی نہی ہو گا کہ وہ پینتیس پنکچروں کے جھوٹ سے جنما تھا۔ کوٸی شعوریا حالیہ احتجاج کو سانحہ 26 نومبر کہہ رہا ہے، کوٸی سانحہ اسلام آباد کہہ رہا ہے، کوٸی جلیانوالہ باغ کے قتل عام سے ملا رہا ہے، کسی کو جنرل ڈاٸیر کی یاد ستانے لگی ہے، کوٸی ہوا میں اڑتی گِدھوں کو اسلام آباد بلیو ایریا کی لاشیں کھانے میں مصروف بتا رہا ہے، کوٸی ایمبولینس میں سات آٹھ لاشیں ڈالے غزہ کے شہدا کی تصویر پوسٹ کر رہا ہے، کوٸی پمز ہسپتال کی چھت پر لاشیں تلاش کر رہا ہے۔ کویا کہ جھوٹ کا ایک طوفان بدتمیزی ہے۔ جھوٹ پر کھڑی یہ پشتون جماعت مزید چلتی نظر نہیں آرہی۔ لوگوں پر گولی چلانا ایک گھناٶنا فعل ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا سرکار اب بھی اموات سے انکاری ہے لیکن میرا خیال ہے سات آٹھ لوگ مریں ہوں گے جس کا خون ریاست اور” پشتون طریقہ اظہار” دونوں کے ذمہ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ہماری ریاست اور اسٹیبلمنٹ کتنی ظالم ہے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ پی ٹی آٸی کتنی جھوٹی مکار اور فتنہ پرورش جماعت ہے۔