Author
1959 میں بنی فلم ”نیند“ میں نورجہاں اور نیلو کا بوسہ دیکھ کر یقین ہو گیا کہ ہمارے بڑے کھلے ڈلے مزاج اور فنون لطیفہ کی باریکیوں کو سمجھنے والے ہم سے بہت ہی بہتر اور سیکولر مزاج کے لوگ تھے۔ ایسا بوسہ اگر آج کی کسی فلم میں فلمایا گیا ہوتا تو فلم نے تو بین ہونا ہی ہونا تھا مولویوں نے نور جہاں اور نیلو کے گھروں کو آگ لگا چکے ہونا تھا جبکہ فلم کے لکھاری ریاض شاہد پر ہم جنس پرستی کی حوصلہ افزاٸی کے الزام پر خلیل الرحمان قمر، اوریا مقبول جان، ہارون الرشید اور سمیع ابراہیم چھوڑےجا چکے ہوتے۔ ریاض شاہد اور نیلو کا بیٹا شان بھی اپنے ماں باپ سے اظہار لاتعلقی کرچکا ہوتا کہ وہ کب کا ریاست اور ”خلیفہ“ کو پیارا ہو چکا۔ ریاض شاہد کی کہانی کو لے کر الزامات کی ایک ایسی طویل فہرست مرتب کی جا چکی ہوتی کہ جان بخشی کے لیے انھیں کسی مغربی ملک میں پناہ لینی پڑتی۔ ریاض شاہد کا یہ جرم کم ہوتا کہ پاکستان بننے کے بارہ برس بعد بھی وہ ڈاٸیلاگز میں ہندی کے الفاظ کا کثرت سے استعمال کر رہا ہے یہ الزام کم ہوتا کہ اداکار اسلم پرویز کو بھگوان کےسنگھاسن پر بٹھا کر نور جہاں کو ایک داسی کی طرح اس کی پوجا کرتے دکھایا گیا ہے اس سے زیاددہ فحاشی کا مرتکب کون ہو سکتا ہے کہ نورجہاں ایک ناجاٸز بچے کو جنم دیتی ہے اور اس کی پیداٸش پر ڈٹ جاتی ہے اس سے بڑا گناہ کیا ہے کہ اداکارہ نگہت سلطانہ بار بار اپنے بلاوز کے اندر چونی اٹھنی پھیننکتی چلی جا رہی ہے۔گویا کہ جرم ہی جرم ہیں پوری فلم میں جو نورجہاں، نگہت سلطانہ، نیلو، علاوالدین، اسلم پرویز، آغا طالش اور ریاض شاہد نے مل جل کر کیے۔ یہ فلم اپنے سکرین پلے، ڈاٸیلاگز، کیمرا ورک، ہدایتکاری،ایکٹنگ، موسیقی اور لوکیشنز کے اعتبار سے اس زمانے کی کسی بھی انڈین یا ہالی ووڈ کی فلم کے ٹکر کی فلم ہے۔ بلکہ اسے تمام زمانوں تمام جہانوں اور تمام تر انسانوں کی فلم کہا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا۔ فلم کے ڈاٸیلاگ اتنے جاندار ہیں کہ دیکھنے والا ایک پل کے لیے فلم سے توجہ ہٹانے کی بھول نہیں کر سکتا۔ بدی کو اچھاٸی اور اچھاٸی کو براٸی پر یوں غالب اور مغلوب ہوتے دکھایا گیا ہے میں باربار سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا میں پاکستانی فلم دیکھ رہا ہوں۔ نور جہاں کی خوبصورتی سے میں کبھی بھی متاثرنہیں رہا لیکن اس فلم میں اس کی خوبصورتی اور خوبصورتی کی پیشکش نے مجھے بے حد متاثر کیا نور جہاں کا لاابالی انداز بار بار کہتا رہا کہ مدھو بالا نے نور جہاں سے بہت کچھ لیا ہے۔ فلم میں نور جہاں کو کٸی بار سوتا ہوا دکھایا گیا ہے کبھی کوٸلوں کی ڈھیری پر، کبھی بنچ پر اور کبھی مندر کی سیڑھیوں پر، اُس کے سونے کے ہر ہرانداز نے طبعیت کو شاد کر دیا اور فلم کے ٹاٸٹل نیند کو ایک خاص معنویت دی ہے۔ فلم کی ایک خاص بات فلم میں استعمال ہونے والی پینٹنگز بھی ہیں جو سین فلماتے ہوۓ بیک گراونڈمیں سین کا حصہ ہیں اور سین کو سمجھنے میں مدد بھی دیتی ہیں۔ بلکہ یہ تصاویر فلم کے ولن اسلم پرویز کی بارہا مقامات پر اس کی بدی پر مبنی فطرت کی رہنماٸی کرتی ہوٸی بھی نظر آتی ہیں۔ میں یہ برملا کہہ سکتا ہوں کہ یہ فلم اانڈو پاک تہذیب کا مشترکہ ورثہ ہے جسے اسکے بنانے والوں نے بڑے چاٶ اور محبت سے بنایا ہے کہ میرا دل اُن سب لوگوں کی محبت میں سرشار ہے۔ فلم کی موسقی رشید عطرے صاحب کی ہے شاعری تنویر نقوی صاحب اور قتیل شفاٸی صاحب کی ہے۔ ڈاٸریکٹر فوٹو گرافی رضا میر صاحب ہیں۔ فلم کے پروڈیوسر ذکا اللہ کچلو اور ایس اے ملک صاحب ہیں جبکہ سکرین پلے اور ہدایت کاری حسن طارق صاحب کی ہے۔ فلم کی کہانی اور ڈاٸیلاگز ریاض شاہد صاحب کے ہیں۔ فلم دیکھیں فلم میں نورجہاں کا نور دیکھیں جو کل عالم کے متششدد مولویوں کے چہروں پر چھاٸی تاریکیوں پر ہزاروں گنا بھاری ہے۔